آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
ایک گاؤں میں ایک مجذوب رہتا تھا، ایک مرتبہ دریا میں سیلاب آنے لگا، سب نے کہا: چلو مجذوب صاحب!اس طرف کھدائی کریں،تاکہ سیلاب کا رُخ کہیں اور ہوجائے اور اپنے حصے کی طرف سے مٹی اونچی کریں۔ تو مجذوب نے گاؤں کی طرف اور ڈھلان کردی۔ سب چلّانے لگے کہ اس طرح تو اور زیادہ پانی آجائے گا۔ اس نے کہا کہ اگر پانی میرے مولیٰ کی مرضی سے آتا ہے تو ہم اس کے لیے راضی ہیں،چناں چہ مجذوب کے اس تسلیم کی برکت سے سیلاب ہٹ گیا۔ لیکن یہ مجذوبوں کا معاملہ ہے، آپ مجذوب نہ بنیے گا، مجذوب معذور ہوتا ہے، ان کی پہچان بڑی مشکل سے ہوتی ہے، ہر ایک کو مجذوب سمجھنا جائز نہیں ہے۔ جن کو لوگ مجذوب سمجھتے ہیں ان میں سے نوے فیصد پاگل ہوتے ہیں۔ مجذوب وہ ہوتے ہیں جن کو اﷲ والے پہچانتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اپنے وقت کا مجذوب ہے۔ اسلاف میں شیخ کی کیا عظمت تھی چناں چہ سید احمد شہید رحمۃ اﷲعلیہ کے دو خلفاء تھے، مولانا سخاوت علی رحمۃ اﷲعلیہ اور مولانا کرامت علی رحمۃ اﷲعلیہ ۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا کرامت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ تم بنگال جاؤ اور وہاں ہدایت کا کام کرو، مگر کہیں ٹھہرنا مت۔ تو مولانا کرامت علی صاحب ساری زندگی صوبہ بنگال میں سفر کرتے رہے اور واقعی یہ ان کا فیض ہے کہ جدھر جدھر سے ان کے قدم گزرے ہیں وہاں مسلمانوں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دوسرے خلیفہ مولانا سخاوت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ تم پڑھایا کرنا اور کہیں مت جانا، بس ایک جگہ جونپور میں بیٹھ جاؤ۔ اب مولانا سخاوت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کوئی نورانی قاعدہ پڑھنے آیا تو اس کو بھی پڑھا دیا، کوئی بخاری شریف پڑھنے آیا اس کو بھی پڑھا دیا۔ کسی نے کہا کہ اتنے بڑے عالم ہو کر آپ نورانی قاعدہ کیوں پڑھاتے ہیں؟ بخاری شریف پڑھایا کریں۔ فرمایا ہمارے پیر نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ بخاری شریف پڑھانا،یہ فرمایاتھا کہ پڑھایا کرنا، لہٰذا جو پڑھنے آئے گا اس کو پڑھا دوں گا۔ یہ حضرات تھے جو اپنے شیخ کی اتنی عظمت کرتے تھے، جبھی تو ان سے فیض ہوتا تھا۔ آج تو ہر مرید خود شیخ بنا پھرتا ہے، اس کے دل میں کوئی رائے آگئی تو شیخ کو بھی رائے دے گا، اسی لیے میخ کے میخ بنے ہوئے ہیں۔