آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
کہ کاش! ان پاگلوں کو اﷲ تعالیٰ عقل عطا فرمائے جو لڑکوں کو پڑھانے کے لیے عورتیں رکھتے ہیں اور لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے مرد رکھتے ہیں یعنی دونوں طرف سے بھیڑیے، بھیڑیے کو کہوکہ بکری کو سلامت رکھنا، حفاظت سے رکھنا۔ بھلا وہ حفاظت سے رکھے گا؟ ایک گھوڑا بھوکا ہے، اس کے سامنے گھاس رکھ دواور کہو خبردار! گھاس کو سلامت رکھنا، تم ایک ولی اﷲ کے گھوڑے ہو، تمہارے کانوں میں رات دن ذکر و تلاوت کی آوازیں آتی ہیں۔ گھوڑے نے بھی کہا ہاں۔ کہا کہ تمہارے مالک صاحب تہجد پڑھتے ہیں؟ اس نے کہا ہاں اچھا تو لاالٰہ الا اللہ کی ضربوں کی آوازیں بھی آتی ہیں؟ گھوڑے نے کہا، جی ہاں اس نے کہا: اچھا اس گھاس کو مت کھانا۔ گھوڑے نے کہا کہ گھاس سے محبت کروں گا تو کھاؤں گا کیا؟ تو میرے دوستو! دیکھو! ایاز نے حقِ غلامی ادا کردیا۔ مولانارومی آگے فرماتے ہیں ؎ نقشِ حق را ہم بہ امرِ حق شکن بر زُجاجۂ دوست سنگِ دوست زن دوست کا پتھر دوست کے شیشے پر ماردو۔ شیطان کتنا ہی کہے ارے ایسی پیاری شکل ہے اس سے بھاری آواز میں رُکھائی سے کیسے باتیں کروں؟ اس سے نرمی سے بات کرنی چاہے، ورنہ لوگ کہیں گے کہ ملّا بد اخلاق ہوتے ہیں، لیکن مولانا رومی فرماتے ہیں کہ دیکھو اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے ؎ بر زُجاجۂ دوست سنگِ دوست زن دوست کے شیشے پر دوست ہی کا پتھر مارو ۔ دلِ شکستہ کی دولتِ قرب اگر وہ حکم دیتے کہ دیکھ لو تو ہم دیکھ لیتے، لیکن ان کا حکم یہی ہے کہ مت دیکھو، چاہے ان کا دل ٹوٹے چاہے تمہارا دل ٹوٹے۔ دونوں موتی ہیں، تمہارا دل ٹوٹ گیا تو اﷲ کے حکم سے موتی ٹوٹ گیا،لیکن ٹوٹے ہوئے دل میں اﷲ ہوتے ہیں، اسی لیے اس کو جلد ترقی ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس کا دل ٹوٹا ہوا ہوتا ہے خدا اس دل میں ہوتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ نے شہوت کے یہ تقاضے پیدا کیے اور ان حسینوں کو ہمارے سامنے بکھیر دیا اور بتادیا کہ ان سے نگاہ بچا لو۔یہ دل توڑنے ہی کے لیے توہے۔ اصغر گونڈوی رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک شعر یاد آیا، کاش! کہ آپ لوگ