آداب عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
کی، چراغاں نہیں کیا، جلوس نہیں نکالا، قوالی نہیں کی۔ اور اپنے لوگ جو کم علم کے ہیں انہیں بھی احساس ہو سکتاہے، شیطان وسوسہ ڈال سکتاہے کہ شاید ہم لوگوں کے اندر کوئی کمی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کرتاہوں۔ سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کے قریب میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی جس میں ایک فرقہ نجات پائے گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ کون سا فرقہ ہوگا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ 16؎جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ وہ راستہ جس پراللہ کا رسول ہے اور وہ راستہ جس پر میرے صحابہ ہیں ۔ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جو طریقہ ہے اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا جو طریقہ ہے اس پر چلنے والے نجات پائیں گے۔ آج کل اخبار میں آتاہے کہ کہیں فلاں کی وفات کا جلسہ ہے، کہیں فلاں کی پیدایش کا جلسہ ہے، اس لیے بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدایش منانے میں کیا حرج ہے؟ سوال یہ ہے کہ سیّد الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے زمانۂ نبوت میں جس میں تیرہ برس آپ نے مکہ مکرمہ میں گزارے اور دس برس مدینہ شریف میں گزارے، تو کیا اس زمانے میں آپ نے کسی پیغمبر کی وفات کا دن منایا؟ کسی پیغمبر کی پیدایش کا دن منایا؟ آپ کی بیبیوں میں سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، کیا آپ نے اگلے سال وہ دن منایا کہ پچھلے سال اس دن کو ہماری بیوی کا انتقال ہو ا تھا، لہٰذا آج کے دن کچھ دیگ ویگ پکوا کر ثواب پہنچا دو تاکہ ان کی یاد تازہ ہوجائے؟ اس کو آج کل کہتے ہیں ڈے منانا۔ اصل میں جب پیٹ زیادہ بھر جاتا ہے تو منہ سے ڈے ڈے ڈے نکلتاہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے معدے میں غیر اسلامی، غیر شرعی، سنت کے خلاف اتنی زیادہ رسمیں گھس گئی ہیں کہ ان کے منہ سے ڈے ڈے نکل رہا ہے۔ اس کا ثواب سے کیا تعلق؟ یہ چیز یورپ سے آئی ہے۔ کسی کی پیدایش کا، کسی کی غمی کا دن منانا یورپ والوں نے یہ کام شروع کیا۔ لہٰذا آپ لوگوں کو سمجھانے کے لیے اور اپنے قلب کو اور آپ کے قلب کو اطمینان دلانے کے لیے آج مجھے اس مسئلے کی تھوڑی سی وضاحت کرنی ہے، تاکہ آپ کو احساس نہ ہو کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق نہیں ہیں اور کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے کہ صاحب ان کی مسجد میں چراغاں نہیں ہوا،لہٰذا معلوم ہوتا _____________________________________________ 16؎جامع الترمذی:93/2، باب افتراق ھذہ الامۃ،ایج ایم سعید