آداب عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم |
ہم نوٹ : |
|
عمل کررہاہے اس کا روزانہ بارہ ربیع الاوّل ہے یا نہیں؟ کیوں کہ آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا مقصد یہی ہے کہ امت آپ کے نقشِ قدم کی اتباع کرے،کیوں کہ ؎نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے اﷲسے ملاتے ہیں سنت کے راستے یہ میرا ہی شعر ہے، اس لیے میں نے عرض کیا کہ ہماری مسجدیں صحابہ کے طریقے پر آباد ہیں۔ اگر سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجدِ نبوی میں چراغاں نہیں کیا تو الحمدللہ! ہماری مسجدیں بھی صحابہ کرام کی یادگار ہیں۔ خدا کے ان عاشقوں کی نقل کرکے ہمیں کوئی حسرت نہیں، تم کچھ بھی کہتے رہو ہمیں اس پر کوئی ندامت نہیں ہے، بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں ان کی اتباع کی توفیق دی اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اے خدا!ہماری زندگی صحابہ کی سنت کے مطابق ہوجائے جس کی ہم کوشش کررہے ہیں۔ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم نے کامل اتباع کرلی، لیکن ہم کم سے کم کچھ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے طریقے پر ہمارا ربیع الاوّل گزرے جیسے ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ربیع الاوّل تھا، جیسے حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ربیع الاوّل تھا، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ربیع الاوّل تھا، جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ربیع الاوّل تھا۔ ہم ان صحابہ کے مطابق ربیع الاوّل گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک سانس بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھولنا بے وفائی اور اپنے ایمان کا ضیاع اور تباہ کاری سمجھتے ہیں۔ ہم پناہ چاہتے ہیں کہ ہمارا کوئی عمل حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نہ ہو۔ ہم تو آنکھوں کو بھی آپ کی سنت کے مطابق استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اے علی خبردار! نامحرم عورتوں کو مت دیکھنا، نظر کی حفاظت کرو۔ پس کسی اَمرد یعنی بے داڑھی مونچھ کے لڑکوں کو دیکھنا یا کسی کی ماں ، بہن ، بہو، بیٹی کو دیکھنا یا اخبارات میں فلم ایکٹرز کی تصویریں دیکھ دیکھ کر للچانا یہ ربیع الاوّل کا حق ادا ہو رہاہے؟ ربیع الاوّل کی حقیقت پانے والے آنکھوں کی سنت یہ ہے کہ جن چیزوں سےسرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے منع فرمایا ان چیزوں سے ہم اپنی آنکھوں کو بچالیں۔ جس نے یہ کرلیا نبی کی سنت اس نے ادا