درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تمہاری گُناہ سے بچنے کی صلاحیت پر فالج گرادوں اور تم ولی اللہ ہُوئے بغیر فاسقانہ حالت میں مرجاؤ۔ لہٰذانعمت کو استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟ آپ کسی کو ایک موٹر دے دیں اور وہ اس کو کبھی استعمال نہ کرے، گیرج میں پڑی رہے تو دینے والا وہ موٹر واپس لے لیتا ہے یا نہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے گناہ سے بچنے کی جو قوت ہمیں دی ہے اس نعمتِ قوت کو استعمال کرنا چاہیے جس کا نام تقویٰ ہے۔ یہ اس نعمت کا شکریہ ہے۔ اگر اللہ نظر بچانے کی، گناہ سے بچنے کی طاقت نہ دیتا تو اللہ تعالیٰ تقویٰ فرض ہی نہ کرتا کیوں کہ کمزور آدمی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ رکھنا ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ ظلم سے پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں گُناہ سے بچنے کی طاقت دی ہے پھر تقویٰ فرض کیا ہے اور طاقت موجود ہونے کی دلیل یہ ہے کہ مثلاً ایک دوکاندار ہے او رایک لڑکی آرہی ہے اور اس کی اچانک نظر اس پر پڑگئی، شیطان نے اس کے چہرے پر فوکس مار دیا یعنی چار آنے حسن کو بیس آنہ دکھادیا جس کے بعد اس کا ارادہ ہوگیا کہ اس کو خوب دیکھنا ہے بعد میں توبہ کرلوں گا۔ اتنی دیر میں ایک غنڈہ آیا اور اس نے پستول دکھایا تو یہ کیا کہے گا کہ پستول وغیرہ نہ دکھاؤ میں آج پاگل ہوگیا ہوں میں اس حسینہ کو ضرور دیکھوں گا، تم اپنا کام کرو میں اپنا کام کروں گا۔ بولو کیا اس کو گولی مارنے دو گے؟ ارے دُم دباکر بھاگو گے، اپنی جان کے خوف سے عاشقی بھول گئے۔ یا اسی وقت دوکان میں ایک سانپ نکل آیا اور اسی لڑکی نے کہا: ارے مولوی صاحب! وہ سانپ! تو اس وقت کیا آپ یہ کہیں گے ؎ ترے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی یا دوکان کا دروازہ کھول کر کے وہاں سے تیر کی طرح بھاگو گے۔ یہ بھی یاد نہ رہے گا کہ اس سے آپ کو پیسے وصول کرنا ہیں۔ اپنی جان کے لیے ایک مخلوق سے ڈرگئے۔ یہ سب مثالیں دے رہا ہوں کہ ہمارا ایمان کس قدر کمزور ہے اور ہم کس درجہ کمینہ اور بے غیرت ہیں کہ ایک سانپ سے اور ایک غنڈے کی پستول سے ڈر گئے او راپنی جان بچانے کے لیے ساری عاشقی فراموش کردی اور جس سے ڈرنا چاہیے اس سے نہیں ڈرتے۔ وہ اللہ