درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
جس کے قبضے میں ہماری موت و حیات ہے، ہماری راحت و آرام ہے، جس کے قبضے میں جنت و دوزخ کا فیصلہ ہے آہ! اس سے ہم بے خوف ہیں۔ لہٰذا اللہ کے نام پر فدا ہوجاؤ، اس کی ناراضگی سے ڈرو اور اس کی محبت میں گناہوں کو چھوڑ دو ورنہ کل قیامت کے دن کیا جواب دو گے؟ بس آج کا مضمون ختم ہے اور آخری شعر کا ترجمہ ہوگیا۔ سارے عالم میں آج کل اختر کا یہی ایک مضمون ہے کہ تم لیلاؤں سے بچ جاؤ تو مولیٰ پاجاؤ گے اور مزہ بھی پاؤ گے یہ نہیں کہ خشک مضمون ہے یہ جو لیلاؤں سے بچتا ہے مولیٰ اس کے دل کی خوشی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ یہی حلاوتِ ایمانی ہے کہ تمہارے دل میں رس گھل جائے گا اور تمہارا دل ایمان کی مٹھاس کو محسوس کرے گا اور لیلاؤں کو دیکھنا تو ایک عذاب ہے، دل اسی وقت تڑپنے لگتا ہے۔ تو لیلاؤں کے عذاب سے بچو اور مولیٰ کی لذتِ قُرب سے مستی حاصل کرو۔ لیلاؤں کی ہستی قابلِ مستی نہیں ہے اور نہ ان کی بستی رہنے کے قابل ہے اگرچہ سستی ہو، مُفت کی بھی ملے تو مت لو۔ حکیمُ الامّت نے فرمایا کہ ایک شخص نے مجھے سُرمہ دیا تو حضرت نے فرمایا کہ بھئی! اس کے اجزاء بتاؤ تاکہ میں اپنے خاندانی حکیم سے مشورہ کرلوں تو وہ غصہ ہوگیا۔ کہا کہ میں تو آپ کو مُفت میں دے رہا ہوں اور آپ کے یہ ناز و نخرے! تو حضرت نے فرمایا کہ تیرا سُرمہ تو مُفت کا ہے میری آنکھ مُفت کی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر گُناہ مفت کا ملے تو کہہ دو کہ یہ گناہ تو مُفت کا ہے لیکن میرا ایمان مفت کا نہیں ہے۔ جو مضمون میں آج کل پیش کررہا ہوں واللہ! اگر ہم لوگ اس پر عمل کرلیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ سورج و چاند کی روشنیاں لوڈ شیڈنگ میں آجائیں گی اور ساری دنیا کی لیلاؤں کے حُسن پھیکے پڑجائیں گے بلکہ ان کے گراؤنڈ فلور کے گُو موت نظر آئیں گے اور دونوں جہاں کی لذّت تم ایک اللہ میں پاجاؤ گے ان شاء اللہ۔ جو دونوں جہاں کی لذّتوں کا خالق ہے وہ مولیٰ جب دل میں تجلّی فرمائے گا۔ تو میرا یہ شعر پڑھو گے ؎ وہ شاہِ دو جہاں جِس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے