درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۲۶؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۷؍دسمبر ۱۹۹۷ء بروز ہفتہ بعد نمازفجر پونے سات بجے بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال بلاک ۲، کراچی در تگِ دریا گہر باسنگ ہاست فخر ہا اندر میانِ ننگ ہاست ارشاد فرمایا کہ دریا کی گہرائی میں موتی کنکریوں میں چھپا ہوتا ہے اس لیے کنکریوں کو اگر حقیر سمجھو گے تو موتی بھی نہیں پاؤ گے۔ ان ہی کنکریوں میں موتی تلاش کرو تو موتی پاجاؤ گے۔ اسی طرح اگر اللہ والوں کے لباس میں جعلی پیر نظر آتے ہیں تو یہ بدگمانی نہ کرو کہ سب ایسے ہی ہوتے ہیں، ان ہی میں تم اللہ والوں کو تلاش کرو تو ان شاء اللہ! اللہ والے مل جائیں گے جیسے کنکریوں میں موتی چھپے ہوئے ہیں ایسے ہی ان ذلیل و خوار دنیا دار جعلی فقیروں میں وہ صاحبِ نسبت بھی چھپے ہوئے ہیں جو پوری انسانیت میں قابلِ فخر ہیں ؎ گرگدایاں طامع اندوزشت خُو درشکم خواراں تو صاحب دل بجُو اگر بھک منگے فقیر اور پیسہ کے لالچی تمہیں اللہ والوں کے حلیہ اور لباس میں نظر آتے ہیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہ اللہ والے ہیں بلکہ پیٹ کے لیے خوار ہونے والوں کے لباس میں صاحبِ دل اور سچے اللہ والے بھی چھپے ہوئے ہیں جن کی شان ہی کچھ اور ہے تلاش کرو گے تو پاجاؤ گے۔ تم نے اللہ والوں کو دیکھا ہی نہیں اس لیے بدگمان ہو ؎ شاہ صاحب جو سمجھتا ہے تو بِھک منگوں کو تُونے دیکھی ابھی وہ صورت شاہانہ نہیں