درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بسم اللہ الرحمٰن الرحیممجلسِ درسِ مثنوی ۱۵؍شعبانُ المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۶؍دسمبر ۱۹۹۷ء بروزِ سہ شنبہ (منگل) بعد فجر بوقت ۷ بجے بمقام خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ ، گلشن اقبال بلاک ۲، کراچی قافیہ اندیشم و دلدارِ من گویدم مندیش جز دیدارِ من ارشاد فرمایا کہ مثنوی شریف الہامی کتاب ہے۔ حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تین کتابیں انوکھی ہیں :قرآن شریف، بُخاری شریف اور مثنوی شریف۔ قرآن شریف تو اللہ کا کلام ہے لہٰذا اس کی مثل اور نظیر کون پیش کرسکتا ہے کیوں کہ کَلَامُ الْمُلُوْکِ مُلُوْکُ الْکَلَامْ ہوتا ہے یعنی بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوا کرتا ہے تو جو اللہ بادشاہوں کو بادشاہت اور سلطنت تخت وتاج کی بھیک عطا کرتا ہے اس احکم الحاکمین کے کلام کی کیا شان ہوگی اور کون اس کے مقابلے میں اپنا کلام لاسکتا ہے۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃاللہ علیہ فرماتے تھے کہ قرآن پاک کے جملے اگرچہ بظاہر ان ہی الف، باء، تاء سے بنے ہوئےہیں، لیکن دراصل یہ الف باء تاء دوسرے عالَم کے ہیں اور اپنے اندر انوارِ الٰہیہ کولیےہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے حروف سے مرتب آیات نے سارے عالَم کو اپنا مثل لانے سے عاجز کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ اُمّی کی زبان سے ایسا فصیح و بلیغ کلام صادر فرمایا جس نے تمام فصحائے عرب کو حیرت زدہ کردیا اور جو عرب اپنی فصاحت و بلاغت کے مقابلے میں غیرعرب کو عجم یعنی گونگا کہا کرتےتھے کلام اللہ کی عظمت شان کے سامنے