درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۱۲؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۱؍جنوری ۱۹۹۸ء بروز یکشنبہ (اتوار) بوقت ساڑھے چھ بجے صبح بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، بلاک ۲، کراچی شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است کہ ازوحمّامِ تقویٰ روشن است اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو مَاءِ دَافِقْ سے پیدا کیا۔ دافق کے معنیٰ ہیں کودنے والا۔ جس کی منی میں اتنی طاقت ہو کہ کود کر کے نکلے اسی کے اولاد ہوتی ہے اور جو بہہ کر نکلے پانی کی طرح رقیق ہوجائے تو ایسے لوگوں کے اولاد نہیں ہوتی۔جب انسان کا مادّہ ہی کودنے والا ہے تو پھر اس کو اگر شہوت ہوتی ہے کوئی تعجّب کی بات نہیں کیوں کہ اس کے مادّۂ تخلیقیہ اور میٹریل کی بنیاد ہی میں اُچھلنا کودنا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے۔ پس طوفانِ شہوت اور گناہ کے تقاضے اس کی فطرت میں شامل ہیں تو اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ اللہ کے خوف سے اپنے کو بچائے اور گناہ کے تقاضوں پر ہمّت کرکے عمل نہ کرے کیوں کہ اگر گُناہ کا تقاضا ہی نہ ہوتو تقویٰ ثابت نہیں ہوسکتا۔ تقویٰ کا وجود ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ تقاضا گُناہ کا پیدا ہو اور پھر اس کو روکو۔ اس روکنے سے جو غم کا جھٹکا لگے گا اسی سے نُورِ تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ نارِ شہوت کو روکنے سے نُورِ تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ شہوت کی نار کو جھکادو تو نُور ہوجاتی ہے۔ نُور کا واؤ جھکا ہوا ہوتاہے اور نار اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ نار میں الف ہے لہٰذا نارِ شہوت کو جھکاؤ اور اس کو قابو میں لاؤ پھر اسی سے نورِ تقویٰ پیدا ہوجائے گا۔ اگر کسی کے اندر بُری خواہش اور گُناہ کے تقاضے نہ ہوں تو وہ شخص متقی ہوہی نہیں سکتا۔ لیکن بے وقوف لوگ ان تقاضوں سے گھبراتے ہیں حتیٰ کہ بعض نادان مرید بھی سمجھتا ہے کہ اتنے دن ہوگئے مُرید ہوئے، اللہ اللہ بھی کررہا ہوں لیکن گُناہ کا