درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۲۱؍رمضانُ المبارک ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۰؍جنوری ۱۹۹۸ء بروز منگل مسجد اشرف در احاطہ خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال بلاک۲، کراچی بگزراں اَز جانِ ماسوءَ القضا وامبر ما را زِ ا خوانُ الصَّفا ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں اے خُدا! جتنے آپ کے فیصلے ہمارے لیے نقصان دہ اور مضر ہیں ان کو مُفید فیصلوں سے تبدیل فرمادیجیے ، اے خُدا! اگر میری نالائقیوں کی وجہ سے آپ نے مجھے جہنمی لکھا ہوا ہے تو اس فیصلے کو کاٹ کر آپ مجھے جنتی لکھ دیجیے۔ یہ مطلب ہے اس کا یعنی آپ کا فیصلہ آپ پر حکومت نہیں کرسکتا آپ کی قضا اور آپ کا فیصلہ آپ پر حاکم نہیں ہے آپ کا محکوم ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کو سکھایا کہ اللہ تعالیٰ سے فیصلے بدلوالو، تقدیریں بدلوالو۔ تقدیر مخلوق نہیں بدل سکتی مگر خالق اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے۔ بس اللہ ہی سے فریاد کرو کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاءِ وَدَرْکِ الشَّقَآءِ وَسُوْٓءِ الْقَضَآءِ وَشَمَاتَۃِ الْأَعْدَآءِ؎ اس حدیثِ پاک میں سوئے قضا سے پناہ مانگی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! اگر میری تقدیر میں کوئی شقاوت، بدبختی اور سوئے قضا یعنی وہ فیصلے جو میرے حق میں بُرے ہیں لکھ دیے گئے ہیں تو آپ ان کو اچھے فیصلوں سے تبدیل فرمادیجیے۔ شقاوت کو سعادت اورسوئے قضا کو حُسنِ قضا سے تبدیل فرمادیجیے۔ یہاں سوء کی نسبت قاضی کی