درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلس درس مثنوی ۲۵؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۶؍دسمبر ۱۹۹۷ء بروز جمعہ پونے سات بجے صبح بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ، گلشن اقبال بلاک ۲، کراچی اتصالے بے تکیُّف بے قیاس ہست ربّ الناّس راباجانِ ناس ارشاد فرمایا کہ اللہ والوں کی ارواح کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو اتصال و قُرب حاصل ہے وہ بے تکیف اور بے قیاس ہے لہٰذا جس کو وہ قُرب نصیب ہے اسی کی جان اس لذّتِ قُرب کو سمجھ سکتی ہے دوسری جان اس کے سمجھنے سے بھی قاصر ہے جس کو خواجہ صاحب نے یوں تعبیر کیا ہے ؎ ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے یہاں تک کہ ایک ولی بھی دوسرے ولی کے قُرب کی تفصیلاتِ کیف سے بے خبر ہوتا ہے، اجمالاً علم ہوتا ہے کہ یہ صاحبِ نسبت ہے لیکن اس کی روح کو جو مقامِ قُرب، جو کیفیتِ قُرب جو لذّتِ قرب حاصل ہے اس کا تفصیلی علم ایک دوسرے کو نہیں ہوتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے، اس کا کوئی کفو اور ہمسر نہیں پس جس دل میں اللہ اپنی تجلّیاتِ خاصہ سے متجلی ہوتا ہے وہ دل گویا حاملِ ذات بے مثل ہوتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ اس کو بھی ایک بے مثل شان عطا فرماتے ہیں جس میں وہ منفرد ہوتا ہے، ہر بندہ میں ایک شان تفرّد اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایک علامت ہے۔ اس لیے ہر ولی کو ایک بے مثل لذّتِ قُرب عطا فرماتے ہیں۔