درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۲۷؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۸؍ دسمبر ۱۹۹۷ء بروز اتوار بعد فجربمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، بلاک۲،کراچی پیش نُورِ آفتابِ خوش مساغ رہنمائی جستن از شمع و چراغ ارشاد فرمایا کہ مساغ معنیٰ رفتار کے ہیں اور آفتاب کی لغت کی ترکیب شاید آپ مجھ سے ہی سُنیں گے کہ آفتاب دراصل آفتِ آب ہے یعنی پانی کے لیے آفت کیوں کہ پانی کو خشک کردیتا ہے۔ اللہ کے ہوتے ہوئے غیر اللہ سے دل لگانے والوں کی مثال مولانا رومی دے رہے ہیں کہ جس طرح بارہ بجے دن کے جب کہ آفتاب اپنی خوش رفتاری کے عروج پر ہو اور سارے عالم کو آب و تاب دے رہا ہو اور سارا عالم اس کے نور سے چمک رہا ہو اس وقت جس طرح موم بتی یا چراغ سے روشنی حاصل کرنا حماقت، نادانی، ناشکری اور ظلم ہے اسی طرح مولیٰ کے ہوتے ہوئے لیلاؤں سے دل لگانا، اللہ کے ہوتے ہوئے غیراللہ سے تسکین حاصل کرنا انتہائی دناءتِ طبع، کمینہ پن اور ظلم ہے۔ اسی لیے لَاۤاِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ؎ کا عاشقانہ ترجمہ یہ کرتا ہوں کہ اے اللہ! نہیں ہے کوئی محبوب سوائے آپ کے کیوں کہ آپ بے عیب ہیں، تمام عیوب سے پاک ہیں اور ہم انتہائی ظالم ہیں کہ آپ جیسے پاک محبوبِ حقیقی کے ہوتے ہوئے عیب دار، ناپاک اور گلنے سڑنے والی لاشوں سے دل لگارہے ہیں، ناپاکوں اور عیب داروں کو محبوب بنارہے ہیں ؎ ------------------------------