درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلس درس مثنوی ۴؍رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ مطابق ۳؍جنوری ۱۹۹۸ء بروز ہفتہ بوقت۷ بجے صبح در خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، بلاک۲، کراچی ارشاد فرمایا کہ آج کے اشعار میں معرفت کا عظیم الشان مضمون ہے۔ اگر یہ مضمون سامنے ہو تو نماز میں، تلاوت میں، سجدہ میں مزہ آجائے گا کہ کتنے عظیم ُالشان مالک کے قدموں میں میرا سر ہے، کتنے عظیمُ الشان مالک کے سامنے میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوں، کتنے عظیمُ الشان مالک کو اس مالک ہی کا کلام سُنارہا ہوں۔ گر تُو ماہ و مہر رَا گوئی خِفا گر تو قدِّ سرو رَا گوئی دوتا مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ان چاند سورج کی روشنی اللہ تعالیٰ کے نور کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے کیوں کہ نور کی تعریف ہے ظَاہِرٌ لِنَفْسِہٖ جو اپنی ذات سے ظاہر ہو اور یہ اپنی ذات سے ظاہر نہیں ہیں ، ان کا نور اللہ تعالیٰ کی ادنیٰ بھیک ہے اور پھر یہ غُروب بھی ہوجاتے ہیں اور اللہ کا نور کبھی غروب نہیں ہوتا اور قیامت کے دن یہ لپیٹ دیے جائیں گے کَمَا قَالَ تَعَالٰی:اِذَا الشَّمۡسُ کُوِّرَتۡ پس ان کی یہ بھیک بھی عارضی ہے لہٰذا اللہ کے نور کے مقابلے میں ان کی روشنی کیا بیچتی ہے۔ اس کے علاوہ چاند اور سورج کا نور فانی بھی ہے اور محدود بھی اور اللہ تعالیٰ کا نور غیر فانی غیر محدود ہے اور فانی محدود اپنی اکثریت کے باوجود غیر فانی غیر محدود کے سامنے اقلیت میں ہوتا ہے۔ اس لیے مولانا فرماتے ہیں کہ اے اللہ! اگر آپ چاند اور سورج کو حقارت سے طعنۂ خِفادیں کہ اے بے نورو! تمہارے اندر کوئی روشنی نہیں ہے، تم مخفی ہو، تم پر تو نور کا اطلاق بھی نہیں ہوتا، تم تو ظَاہِرٌلِنَفْسِہٖ بھی نہیں ہو تو مُظْھِرٌ لِغَیْرِہٖ کیسے ہوسکتے ہو، میری دی ہوئی بھیک سے تم روشن ہو اور کائنات کو روشن کررہے ہو، اور روزانہ تم کو غروب کرکے تمہاری حقارت