درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۲۱؍ شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۲؍دسمبر ۱۹۹۷ء بروز دوشنبہ بعد فجر بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ،کراچی عشق من پیدا و دلبر نا پدید در دو عالم ایں چنیں دلبر کہ دید ارشاد فرمایا کہ جب یہ شعر پڑھتا ہوں تو مجھے اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُ اللہ علیہ کی یاد آجاتی ہے۔ حضرت جب رات کو تہجّد کے لیے اُٹھتے تھے تو اس شعر سے ان کا آغازِ بندگی ہوتا تھا۔ استنجے کے لیے لوٹا لیے جارہے ہیں اور یہ شعر پڑھتے جارہے ہیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہر وقت وہ اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔آہ! وہ پرکیف دن یاد آتے ہیں جب پھولپور کے جنگل میں جہاں کسی انسان کی آواز نہیں آتی تھی سوائے شیخ کے نعرہ ہائے عشق کے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ پھولپور میں دس برس تک مجھے اللہ نے شیخ کی خدمت کی توفیق دی۔ جو ن کی گرمی میں جب قریب کے تالاب کا پانی ختم ہوجاتا تھا تو سخت لو میں ایک میل دور ندی سے حضرت کے لیے پانی لاتا تھا اور حضرت کے کپڑے اختر ہی دھوتا تھا اور رات کو تین بجے اُٹھ کر وضو کرانا بھی میرے ہی ذمہ تھا۔ کیا کہوں کیا لُطف آتا تھا۔ رات کو اُٹھنے کے بعد حضرت کی زبان پر یہی شعر ہوتا تھا ؎ عشق من پیدا دلبر ناپدید میرا عشق تو ظاہر ہے کہ میں رات کو اُٹھ رہا ہوں، وضو کررہا ہوں، نماز میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوں یعنی بندوں کے اعمالِ عشق تو نظر آرہے ہیں، وضو، نماز، روزہ یہاں تک کہ عشّاق اپنی گردنیں بھی جہاد میں کٹارہے ہیں لیکن جن کے لیے یہ اعمالِ محبت کیے جارہے ہیں وہ محبوب نظر نہیں آتا، وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہے اس پر ہم ایمان بالغیب