درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۱۸؍رمضانُ المبارک ۱۴۱۸ھ مطابق ۱۷؍جنوری ۱۹۹۸ء بروز ہفتہ بعد نمازِ فجر بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال بلاک۲،کراچی قطرۂ دانش کہ بخشیدی ز پیش متّصل گرداں بہ دریا ہائے خویش ارشاد فرمایا کہ دانش دانستن سے ہے جس کے معنیٰ ہیں جاننا، اس کا مضارع ہوتا ہے داند پھر داند کا دال گراکر شین بڑھانے سے حاصلِ مصدر بن گیا۔ حضرت جلالُ الدین رومی ارشاد فرماتے ہیں کہ اے اللہ! آپ نے اپنے کرم سے علم و دانش کا ایک قطرہ جو مجھے بخشا ہے اسے اپنے غیر محدود دریائے علم سے متصل فرمادیجیے۔ جس کے قطرۂ علم کا اتصال حق تعالیٰ کے غیر محدود دریائے علم سے ہوگیا پھر سوچ لو کہ اس کا علم کیسا ہوگا۔ اس کا علم کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس لیے اللہ والےعُلماء کے علم کو عُلمائے ظاہر نہیں پاسکتے۔ جن کا قطرۂ علمِ کُتب بینی سے متعلق ہے اور جن کا قطرۂ علم اللہ تعالیٰ کے دریائے غیر محدود سے متّصل ہے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کنواں کھودا اور اس میں باہر سے پانی بھردیا یہ پانی ایک دن ختم ہوجائے گا۔ یہ مثال ہے عُلماء غیر صاحبِ نسبت کے علم کی جنہوں نے کُتب بینی سے علم کے حروف اور نقوش تو حاصل کیے لیکن کسی ولی اللہ کی صحبت میں رہ کر علم کی روح حاصل نہیں کی جس کے متعلق ایک محدّث کا شعر ہے جو میرے خلیفہ بھی ہیں اور جن کو حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب رحمۃُاللہ علیہ نے حدیث پڑھانے کے لیے جنوبی افریقہ بھیجا تھا، ان کا یہ شعر بہت عمدہ ہے ؎ اگر ملی نہ غُلامی کسی خُدا کے ولی کی تو علمِ درسِ نظامی کو علم ہی نہیں کہتے