درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۱۶؍ رمضانُ المبارک ۱۴۱۸ھ بمطابق ۱۵؍ جنوری ۱۹۹۸ء بروز جمعرات بوقت ساڑھے چھ بجے صبح درخانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال بلاک۲، کراچی گرزچاہے می کُنی ہر روز خاک عاقبت اندر رسی در آب ِ پاک ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اگر کسی کنویں سے تم روزانہ مٹی نکالتے رہو گے تو ایک دن تم کو پاک و صاف پانی مل جائے گا۔ اس شعر میں پورا سلوک ہے، پورا تصوّف اور پوری فقیری ہے۔ جب میں معارفِ مثنوی لکھ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو خواب میں اس کی شرح عطا فرمائی کہ پانی کھودتے وقت چار منزلیں آتی ہیں۔ سب سے پہلے سوکھی مٹی نکلتی ہے جس میں پانی کا نشان تک نہیں ہوتا مگر تواتر سے اہلِ تجربہ پر یقین کرتے ہوئے آدمی کام کرتا ہے اور سوکھی مٹی نکالتا رہتا ہے، آٹھ دس فٹ تک خالی سوکھی مٹی آتی ہے لیکن وہ مایوس نہیں ہوتا۔ اس کے بعد جب مٹی میں تھوڑی تھوڑی نمی آتی ہے تو خوش ہوجاتا ہے کہ اب معلوم ہوتا ہے پانی کی منزل قریب آرہی ہے۔ پھر اس کے بعد ایک زمانہ آئے گا کہ مٹی اور پانی پچاس پچاس فیصد آنے لگتا ہے یعنی آدھا پانی آدھی مٹی جس کو کیچڑ کہتے ہیں، اس منزل تک جب آدمی پہنچتا ہے تو سمجھتا ہے کہ اب ہم پانی کو پاگئے لیکن اہلِ تجربہ کہتے ہیں کہ ابھی صبر نہ کرنا، کیچڑ پر قناعت نہ کرنا، ابھی اور کھدائی کرو، اور محنت و مُجاہدہ کرو یہاں تک کہ پھر بالکل صاف پانی آجاتا ہے۔ یہ چار منزلیں ہوگئیں۔ میرے قلب میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ سلوک کے بھی چار منازل ہیں۔ شروع شروع میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے میں آپ کو مزہ نہیں آئے گا خشک مٹی