درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلس درس مثنوی ۲؍ رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ بمطابق یکم جنوری ۱۹۹۸ء برو ز جمعرات بوقت چھ بج کر پینتالیس منٹ بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال ۲،کراچی سوئے آہوئے بصیدی تافتی خویش را در صیدِخو کے یافتی ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ تم ہرن کی تلاش میں دوڑے ناز و تبختر کے ساتھ کہ آج ہم ضرور ہرن کا شکار کریں گے لیکن تمہارا ناز ٹوٹ گیا اور اچانک تم نے اپنے کو دیکھا کہ ایک جنگلی سور نے جھاڑی سے نکل کر تم کو منہ میں دبالیا اور اپنے بڑے بڑے دانتوں سے تمہیں چبانے لگا۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ایسے ہی بعض سالک نسبت مع اللہ اور حصولِ دولت تعلق مع اللہ کے لیے شیخ سے وابستہ ہوکر ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے تاکہ اللہ کے قُرب کا ہرن حاصل کرے مگر نفس و شیطان جنگلی سور کی طرح کسی معشوقِ مجازی کے عشق میں مبتلا کردیتے ہیں۔ شیطان تو نفس کو اکساکر چلا جاتا ہے پھر نفس کا جنگلی سور اس کو اپنے منہ میں چباتا رہتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مولیٰ تک پہنچتا کسی مرنے والی لاش پر فدا ہوجاتا ہے۔ یعنی کسی لڑکی یا امرد یعنی نوجوان مرد کی محبت میں مبتلا ہوکر پیشاب اور پاخانے کے مقام پر انتہائی ذلّت اور پستی کے ساتھ اپنی زندگی کے شب و روز ضایع کرکے خَسِرَالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ کا مصداق بن جاتا ہے۔ نفس کا طبعی مزاج کرگسی ہے یعنی نفس بالطبع کرگس ہے، مردہ خور ہے۔ بڑی مشکل سے اس کو پاکی ملتی ہے، ایک زمانہ چاہیے اللہ سے روتے ہوئے اور شیخ کی خدمت کرتے ہوئے اور اس کی دُعائیں لیتے ہوئے۔ مالک کا جب فضل ہوتا ہے تب جاکر پھر مُردہ خوری سے اس کو نجات ملتی ہے اور اس کی کرگسیت