درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بسم اللہ الرحمٰن الرحیمعرضِ مرتّب رمضان المبارک ۱۴۱۸ھ میں مُرشدی و مولائی عارف باللہ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب اطال اللہ ظلالہم و ادام اللہ برکاتہم کے سفرِ عُمرہ کا نظم بوجوہ ملتوی ہوا۔ اس کی خبر کے عام ہوتے ہی حضرت والا کی خدمت میں رمضان المبارک گزارنے کے لیے مختلف ممالک سے حضرت والا کے متعلقین اجازت لے کر آنے لگے اور شعبان کے وسط تک ہندوستان، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، کینیا، برطانیہ اور امریکا وغیرہ کے کئی عُلما و دیگر حضرات تشریف لے آئے۔ یہ حضراتِ عُلماء حضرت والا کے درسِ مثنوی کے مشتاق تھے چناں چہ ان کی خواہش پر باوجود ضعف کے حضرت والا مدظلہم العالی نے وسطِ شعبان سے آخرِ عشرۂ رمضان تک تقریباً روزانہ مثنوی شریف کا درس دیا جو الہامی علوم و معارف کے ساتھ عشق و محبت کی آگ لیےہوئے آشوب و چرخ و ز لزلہ کا مصداق تھا کیوں کہ یہ درسِ محبّت بزبانِ محبّت تھا جس میں مولانا روم کے سینے کی آتشِ عشق اور حضرت والا کی آتشِ عشق باہم مل کر شرابِ محبتِ الٰہیہ دو آتشہ ہوگئی جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے ؎ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں چناں چہ ایک ایک لفظ عشق و محبت و کیف و مستی میں ڈوبا ہوا ہے جس سے علماء وجد میں آئے اور مست و سرشار ہوگئے۔ حضرت والا کے تصوف کے ایک ہاتھ میں اگر اسرارِ عشق و مستی ہیں تو دوسرے ہاتھ میں قرآن و سُنّت کے دلائلِ علمی ہیں جو علمائے محققین راسخین فی العلم کےلیےباعثِ کیف ووجد اور منکرین کےلیےدعوتِ فکر و تدبر ہیں۔ الحمد للہ تعالیٰ حضرت والا اطال اللہ ظلالھم وادام اللہ برکاتہم نے تصوّف کو قرآن و حدیث کے عُلوم و معارف سے ایسا مدلل فرمادیا ہے کہ اب اس الزام کی گنجایش نہیں رہی کہ تصوّف و طریقت قرآن و سُنّت کے خلاف ہے۔ اسی لیے