درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مجلسِ درسِ مثنوی ۲۳؍شعبان المعظم ۱۴۱۸ھ مطابق ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۷ء بروز بُدھ بعد فجر بمقام خانقاہ امدادیہ اشرفیہ، گلشن اقبال، کراچی ارشاد فرمایا کہ نفس کا مزاج اپنی فطرت کے حساب سے فرعونیت ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ نفس فرعون است ہیں سیرش مکُن تانہ یادش آید آں کُفر ِ کُہَن نفس اپنے اَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِ ہونے کی وجہ سے فرعون خصلت ہے لہٰذا اس کو زیادہ سیر مت کرو۔ یہ دو خوراک سے موٹا ہوجاتا ہے۔ ایک تو اس کو غذا بہت زیادہ مت دو۔ اتنا زیادہ گھوڑے کو کھلانا کہ جس سے سوار کو گرادے نادانی ہے۔ بس اتنا کھلاؤ کہ وہ قابو میں رہے۔ نفس کو اتنا زیادہ مت کھلاؤ پلاؤ کہ جس سے تم اس پر کنٹرول اور قابو نہ کرسکو اور دوسری خوراک اس کو گُناہ سے ملتی ہے۔ جسمانی غذا سے اس کو اتنا مزہ نہیں آتا جتنا کہ گُناہ سے آتا ہے اور ہر گُناہ کے بعد اس کی طاقتِ گُناہ کے مزاج میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ شیطان تو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ جی بھر کے خوب گناہ کرلو پھر ہمیشہ کے لیے متقی بن جاؤ ۔ گُناہوں سے پیٹ بھر جائے گا مگر نفس کا پیٹ گُناہوں سے نہیں بھرتا، گُناہ کے تقاضوں میں اور شدت آجاتی ہے کیوں کہ گُناہ نفس کی غذا ہے۔ اپنی غذا پاکر یہ اور تگڑا ہوجاتا ہے اس لیے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ نفس کو سیر مت کرو ورنہ اس کو اپنا پُرانا پاپ یاد آنے لگے گا جس طرح فرعون کو اپنا پُرانا کُفر یاد آگیا تھا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دعوتِ اسلام دی تو اس کا قفلِ کُفر ٹوٹنے لگا اور وہ کچھ اسلام کی طرف مائل ہوا لیکن کم بخت نے اپنے وزیرہامان بے ایمان سے مشورہ کیا تو ہامان نے اپنا سر پیٹ لیا اور مولانا رومی فرماتے