درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
الغیاث از ابتلایت الغیاث شُد ذکور از ابتلایت چوں اُناث ارشاد فرمایا کہ اے خدا! فریاد کرتا ہوں کہ اپنی رحمت سے میرا امتحان نہ لیجیے۔ آپ کے امتحان سے پناہ چاہتا ہوں۔ بڑے بڑے مرد جب آپ کے امتحان میں مبتلا ہوئے تو مؤنث ثابت ہوئے یعنی فیل ہوگئے۔ یَاغَیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْنَ اِھْدِنَا لَاافْتِخَارَ بِالْعُلُوْمِ وَالْغِنَا اے فریاد کرنے والوں کی فریاد درسی کرنے والے، اے سارے عالم کی فریاد سننے والے ہم کو اپنی مرضی اور خوشی کا راستہ دکھائیے اور اس راستے پر ہم کو چلائیے۔ ہم کو اپنے علوم پر کوئی فخر نہیں اور بوجہ علم کے آپ کی رحمت سے کوئی استغناء نہیں یعنی ہم کو جو آپ نے علم عطا فرمایا نہ اس پر ہمیں فخر ہے نہ اس علم کی وجہ سے ہم آپ کے کرم سے مستغنی ہوسکتے ہیں کیوں کہ اگر آپ کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو علم اور عمل میں فاصلے ہوجاتے ہیں اور علم کے باوجود آدمی بدعمل رہتا ہے اور کبر و عناد سے مغلوب ہوکر حق کو قبول نہیں کرتا اور حرص و طمع اور جاہ کی خاطر حقائق سے اعراض کرتا ہے۔ اس لیے آپ اپنی رحمت اور اپنی ہدایت کو ہر نَفَس میرے شاملِ حال رکھیے اور مجھ کو میرے نفس کے حوالے نہ فرمائیے۔ ہمارا علم ہمیں آپ کی نافر مانی کے راستوں سے بچانے کے لیے کافی نہیں لہٰذا ہمارا ہر سانس آپ کی رحمت کا محتاج ہے، آپ کی نصرت کا محتاج ہے۔ اگر اللہ کا فضل نہ ہو، اللہ ہمیں اپنی ہدایت کے لیے نہ قبول کرے تو کسی کا تزکیہ نہیں ہوسکتا اور اصلاحِ نفس تین باتوں پر موقوف ہے۔ بغیر تین باتوں کے کوئی پاک نہیں ہوسکتا۔ دنیا میں جب کہ ہدایت کے سب سے بڑے آفتاب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی موجود تھی، آپ سے بڑھ کر کون ہدایت کا مرکز ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے لیے فرمایا: وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ