درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تک خیر منائے گی، کسی نہ کسی وقت نظر اُٹھ جائے گی یہاں تک کہ گُناہ ِ کبیرہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہے اس لیے جسم کو اللہ کی نافرمانی کے اسباب سے دور کردیا اس کا نام فرارِ قالبی، فرارِ بدنی ہے۔ فرارِ شرعی کی یہ تین قسمیں شاید ہی آپ کسی کتاب میں پائیں گے۔ مُفسرین کی جتنی عربی تفسیریں ہیں اس آیت کی تفسیر دیکھیے مجھے اللہ کی رحمت سے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس علم میں اختر کو اس وقت خاص فرمایا اور شاید ہی یہ بات آپ کہیں پائیں اور شاید کا لفظ دعویٰ توڑنے کے لیے کررہا ہوں اور اس کو تفسیر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ قرآنِ پاک کے لطائف میں سے ہے۔ اور یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ کا مطلب خالی حسینوں سے بھاگنا نہیں ہے بلکہ اللہ کی نافرمانی سے بھاگنا ہے لیکن چوں کہ اس زمانے میں حسن پرستی کی بیماری عام ہورہی ہے اور اس کا کالرا پھیلا ہوا ہےاور جب کالرا پھیلا ہوتا ہے تو زکام کے علاج پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی کیوں کہ زکام کا مریض تو برسوں چل سکتا ہے لیکن کالرا کا مریض آناً فاناً مرجاتا ہے۔ اس دور کا مہلک مرض یہی حسن پرستی، بدنگاہی و عشقِ مجازی ہے اس لیے اس کا تذکرہ زیادہ کرتا ہوں لیکن اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ بس حسینوں سے بچ جاؤ اور پھر خُو ب سودی کاروبار کرو، رشوت کھاؤ، سودی مُلازمتیں کرو، خوب ٹیلی وژن ، وی سی آر اور سنیما دیکھو۔ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ کے معنیٰ ہیں کہ اللہ کی ہر نافر مانی سے بھاگو۔ جتنے سودی کاروبار اور سودی ملازمتیں ہیں ان سے بھاگنا اور حلال تلاش کرنا اور حلال روزی کے لیے رات دن اللہ سے رونا اور جب حلال مل جائے تو حرام کو فوراً ترک کردینایہ سب فرار الی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح خاندان کی ان تقریبات شادی بیاہ وغیرہ میں شرکت نہ کرنا جہاں فوٹو کشی ہورہی ہو یا مووی بن رہی ہو یا عورتیں ا ور مرد مخلوط ہوکر دعوتِ ولیمہ کھارہے ہوں یا جہاں ساز اور باجا اور گانوں کی ریکارڈنگ ہورہی ہو اور اللہ تعالیٰ کے فرامینِ عالیہ کو پاش پاش کیا جارہا ہو ایسی مجالس میں شرکت نہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی تمام نافرمانیوں کو چھوڑ دینا سب اس فرار میں داخل ہے۔ ہر گُناہ کو چھوڑنا اللہ کی طرف بھاگنا ہے اور اللہ کی طرف قرار پکڑنا ہے ؎