درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
معدے میں جاتا ہے جس سے جسم میں طاقت تو آتی ہے لیکن اس حلوہ کا کچھ حصہ جسم میں غلاظت بھی بن جاتا ہے اور اہل اللہ کے حلوۂ باطنی سے رگ رگ میں انوار کے دریا بہتے ہیں اس لیے اہل اللہ کے حلوۂ باطنی کی عید کو دنیا داروں کے حلوۂ بطنی کی عید نہیں پاسکتی، دونوں کی لذّت میں کوئی نسبت اور تقابل نہیں۔ اس کا نام ہے غیر اللہ سے بھاگ کر اللہ سے قریب ہونے کی لذّتِ قرار۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو لذّتِ فرار بھی دیتا ہے اور لذتِ قرار بھی دیتا ہے۔ اور ابھی ابھی ایک علمِ عظیم عطا ہوا کہ فرار کی دو قسمیں ہیں: ایک فرار طبعی اور دوسرا فرارِ شرعی۔ جب حسین محبوب بڈھا ہوگیا اس وقت جو اس سے بھاگتا ہے تو یہ فرار طبعی ہے اس میں کافر بھی شامل ہے۔ کوئی عیسائی اور یہودی بھی کسی بڈھی بڈھے کو نہیں دیکھتا۔ اسی پر میرا شعر ہے ؎ میر کا معشوق جب بڈھا ہوا بھاگ نکلے میر بُڈّھے حسن سے لیکن اللہ کے دوستوں کا یہ مقام نہیں ہے کہ جب معشوق یا معشوقہ بڈھی ہوگئی، تو اس سے بھاگے، یہ بھاگنا کیا کمال ہے، اب تو ہندو اور یہودی بھی بھاگے گا۔ جو چیز کافر اور مؤمن میں مُشترک ہو وہ مؤمن کی امتیازی شان نہیں ہوسکتی۔ مؤمن کی امتیازی شان یہ ہے کہ حسن کا عالمِ شباب ہو، اور طبیعت کا شدید میلان اور ہیجان ہو کہ اس حسین کو دیکھ لو، اس کا بوسہ لے لو، گناہ کرلو مؤمن اس وقت اللہ کے خوف سے بھاگتا ہے، شبابِ حُسن سے صرفِ نظر کرتا ہے اس کا نام فرارِ شرعی ہے اور فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ میں اسی فرار کا حکم ہے۔ اور فرارِ شرعی کی تین قسمیں ہیں۔ آنکھوں سے حسین لڑکیوں اور لڑکوں کو نہیں دیکھا، شدید تقاصے کے باوجود نگاہِ چشمی کی حفاظت کی یعنی اپنی نگاہوں کو حسینوں سے بچایا اس کا نام فرار ِ عینی ہے۔ اس کے بعد نگاہِ قلبی کی بھی حفاظت کی یعنی دل میں گندے گندے خیالات نہیں پکائے، دل میں قصداً اس حسین کا خیال نہیں لائے اس کا نام فرارِ قلبی ہے۔ اس کے بعد جسم سے بھی بھاگے، حسینوں کے پاس سے اپنے جسم کو بھی دور کردیا، اسبابِ گناہ سے دور ہوگئے کہ اگر قریب رہیں گے تو بکرے کی ماں کب