درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو جوانی کر فدا اس پر دیا جس نے جوانی کو گر زِ صورت بگزری اے دوستاں گلستان است گلستان است گلستاں ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں اے سالکینِ کرام! اگر صورت پرستی کے عذاب سے تم نجات پاجاؤ تو تمہاری روح کے اندر ہر وقت اللہ تعالیٰ کے قُرب کا باغ ہی باغ نظر آئے گا۔ گُناہ سے بھاگنا یہ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ ہے جس کی تفسیر علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں کی ہے اَیْ فَفِرُّوْاعَمَّاسِوَی اللہِ اِلَی اللہِ؎ غیر اللہ سے بھاگو اللہ کی طرف۔ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ نازل فرماکر اللہ نے اپنے عاشقوں کو دو لذّتیں بخشی ہیں، ایک لذّتِ فرار الی اللہ اور دوسری لذّتِ قرار مع اللہ یعنی غیر اللہ سے بھاگنے کی لذّتِ فرار اور اللہ کے پاس آنے کی لذّتِ قرار اور فرار الی اللہ میں بھی اللہ نے ایک خاص لذّت رکھی ہے جیسے جب بچہ غیروں اور دشمنوں سے جان چھڑاکر باپ کی طرف بھاگتا ہے تو اس فرار میں اس کو ایک مزہ آتا ہے کہ میں باپ سے قریب ہورہا ہوں اور جب باپ کی گود میں آجاتا ہے تو اس کو ایک دوسری لذّت ملتی ہے یعنی باپ کی گود کی لذّتِ قرار۔ اللہ کی ہر نافرمانی سے بچنا، گناہوں سے بھاگنا، حسینوں سے نظر بچانا یہ فرار الی اللہ ہے جس کے نقطۂ آغاز اور زیرو پوائنٹ سے ہی قلب میں سکون اور چین کا آغاز ہوجاتا ہے کیوں کہ اللہ دیکھ رہا ہے کہ میرا بندہ غیر اللہ سے بھاگ رہا ہے تو اسی وقت اللہ کی رحمت کی بارش شروع ہوجاتی ہے۔ اسی کا نام ہے غیر اللہ سے بھاگنے کی لذّتِ فرار اور جب غیر اللہ سے بھاگ گیا تو اللہ کے پاس پہنچ گیا چاہے کوئی نفلی عبادت بھی نہ کرے لیکن یہ اللہ سے قریب ہوگیا کیوں کہ غیر اللہ سے فرار کے بعد لذّتِ قرار خود بخود ملتی ہے اور حلوۂ ایمانی قلب میں اُتر جاتا ہے اور یہ اللہ کے عاشقوں کی عید ہے جو ان کو ہر زمانہ میں نصیب ہے۔ دنیا داروں کی عید تو سال میں ایک بار ہوتی ہے جب ان کو حلوہ ملتا ہے اور ان کا حلوۂ بطنی ------------------------------