درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جب تم ان بزرگوں کے نقشِ قدم پر نہیں چلتے اور جب عملاً تم ان کو حق پر نہیں سمجھتے اور ان کی طرح اہل اللہ سے نہیں جڑتے تو پھر جامعہ قاسمیہ، جامعہ رشیدیہ، جامعہ اشرفیہ وغیرہ نام کیوں رکھتے ہو۔ چندہ لینے کے لیے ان بزرگوں کی ہڈیاں بیچتے ہو، جن کے نام پر مال لیتے ہو اور اپنے مدرسے چلارہے ہو ان ہی کے نقشِ قدم کی مخالفت کرتے ہو۔ لہٰذا جو شخص راہِ اہل اللہ کی مخالفت کرتا ہے یہ بھی کسی عذابِ قہر میں مبتلا ہے کیوں کہ صراط منعم علیہم یعنی اللہ کے عاشقوں کا راستہ ہی مُستند ہے باقی تمام راستے گمراہی کی طرف جاتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کا شعر ہے اور کیا خوب ہے۔ فرماتے ہیں ؎ مُستند رستے وہی مانے گئے جن سے ہوکر تیرے دیوانے گئے لوٹ آئے جتنے فرزانے گئے تابہ منزل صرف دیوانے گئے آہ کو نسبت ہے کچھ عُشّاق سے آہ نکلی اور پہچانے گئے از شرابِ قہر چوں مستی دہی نیست ہارا صورت ہستی دہی ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اے خُدا! جب آپ کسی پر اس کی شامتِ عمل کے سبب عذاب نازل کرنا چاہتے ہیں تو فانی صورتیں اس کو نہایت مہتم بالشان معلوم ہوتی ہیں اور ایسے شخص کی مٹی مٹی کی صورتوں پر مٹی ہوجاتی ہے اور فانی اجسام قبروں میں بے نام و نشان ہوکر عاشقوں کے لیے باعث ِ حسرت و ندامت اور ضیاعِ سرمایۂ زندگانی بن جاتے ہیں۔ احقر کا ایک شعر ہے ؎