درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کسی گناہ کے عذاب میں قعرِ چاہ یعنی کنویں کی گہرائی کا اندھیرا تمہیں باغ معلوم ہونے لگے اور چاند جیسا چہرہ تم کو ڈراؤنی شکل دکھائی دینے لگے جس طرح سرکشی و کُفر و عناد کی سزا میں ابُو جہل کی اندھی بصیرت کو نبوت کا مقام نظر نہ آسکا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مُبارک نعوذ باللہ اس خبیث کو بُرا لگتا تھا اور عشق و محبت کی وجہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بصیرت چوں کہ صحیح تھی اس لیے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ٔ انور پر آفتاب چلتا ہوا نظر آتا تھا۔ دونوں کی نظر کے فیصلوں میں کتنا زبردست فرق ہوگیا۔ لہٰذا کثرت سے یہ دُعا مانگنی چاہیے۔ اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ؎ اے اللہ! ہم کو حق کا حق ہونا دکھا اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل دکھا او راس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اسی طرح کسی گُناہ کے عذاب میں جب دل و نظر پر قہرِ خداوندی ہوتا ہے تو قعرِ چاہ کی ظلمت یعنی فانی شکلیں اور گناہ کے مواقع اور گندے مقامات اس کو سلطنت سے بھی افضل معلوم ہوتے ہیں۔ قوتِ فکریہ ہی مفلوج ہوجاتی ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کررہا ہوں۔ اسی تقلیبِ ابصار و قلوب کا نتیجہ ہے کہ بعض مُتقشَّف اورمحروم القسمت عین دین کو غیر دین سمجھ کر پیری مریدی کو بے وقوفی سمجھتے ہیں حالاں کہ یہ خود پر لے درجہ کے بے وقوف ہیں کیوں کہ اگر ان کی بات کو صحیح مانا جائے تو لازم آتا ہے کہ چاروں سلسلوں کے بڑے بڑے عُلماء کو تم نے بے وقوف سمجھا۔ جاہل پیروں اور قبر پُوجنے والوں کی پیری مُریدی سے تو بے شک احتیاط واجب ہے لیکن اہلِ حق سے مُرید ہونے کی حماقت سمجھنا ایک ہزار سال کے تمام اولیاء اللہ اور عُلمائے ربانیین کی شان میں گستاخی ہے۔ یہ شخص گویا امام غزالی، مولانا رومی ، جنید بغدادی، حضرت عبدالقادر جیلانی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، حضرت مولاناحکیمُ الامّت تھانوی اور ہمارے سارے اکابر رحمہم ُ اللہ علیہم اجمعین کو بے وقوف سمجھتا ہے کیوں کہ بیعت کا یہ سلسلہ چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے۔ یہ سارے اکابر پیری مُریدی کے راستہ سے اللہ والے ہوئے ہیں۔ جو تصوف کے مُخالفین ------------------------------