درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
ایک بار بھی نظر خراب نہیں کی۔ یہ شیخ کی کرامت ہے۔ اگر یہ خود سے اپنے اوپر جرمانہ کرتا تو فائدہ نہ ہوتا۔ شیخ کے مشورہ میں اللہ تعالیٰ نے برکت اور خاصیت رکھی ہے۔ ایک دوا آپ کھالیں اور وہی دوا حکیم کے مشورے سے کھائیں فرق ہوجائے گا۔ ساؤتھ افریقہ میں ایک عالم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ہر وقت باوضو رہنا چاہتا ہوں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے میں نے کہا کہ ہر وقت باوضو رہنا تو اس کا کیا کہنا کہ لیکن صحابہ کے جسم ماشاء اللہ مضبوط تھے ان کی صحت بہت اچھی تھی۔ اس زمانے میں اب صحت اس قابل نہیں کہ ریاح کو دیر تک روکا جائے کیوں کہ اگر ریاح (گیس) کا خدانخواستہ دل کی طرف رجوع ہوجائے تو ہارٹ اٹیک بھی ہوسکتا ہےلہٰذا ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش نہ کرو لیکن آنکھوں کو ہر وقت باوضو رکھو یہ اس کا بہترین بدل ہے۔ اس مشورے سے وہ عالم بہت محظوظ ہوئے۔ باوضو ہیں اور عورتوں کو دیکھ رہے ہیں تو ایسے وضو سے کیا فائدہ۔ ہمارے یہاں ایک گانے والی خبیثہ کا بیان اخباروں میں آیا تھا کہ میں باوضو گانا گاتی ہوں تو میں نے کہا کہ اگر کوئی کہے کہ میں باوضو زنا کراتی ہوں تو کیا زنا حلال ہوجائے گا وضو کرنے سے! بلکہ حرام چیز پر بسم اللہ پڑھنا یاحرام کام کے لیے وضو کرنا اس میں اندیشۂ کُفر ہے۔ لہٰذا آنکھوں کا وضو رکھو کہ آنکھ سے کوئی غلط اور حرام الذّت استیراد اور امپورٹ نہ کرو تو گویا آپ باوضو ہیں یعنی گناہوں سے پاک ہیں۔ گناہ سے بچنا باوضو رہنے سے افضل ہے۔ چوں مُقلِّب بود حق ابصار را او بگر داند دل و افکار را ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مقلبِ ابصار بھی ہے اور مُقلّبِ قلوب وافکار بھی ہے یعنی جو اللہ تمہاری نگاہوں میں تصرف کرنے پر قادر ہے وہ تمہارے دل پر تصرف کرنے پر بھی قادر ہے۔ جو ابصار کو تبدیل کرسکتا ہے وہ افکار کو بھی تبدیل کرسکتا ہے،جو آنکھوں کو بدل سکتا ہے وہ دل کو بھی بدل سکتا ہے، جو نظر بدل سکتا ہے وہ تمہاری قوتِ فکر یہ اور عقائد و افکار کو بھی بدل سکتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے تصرفات سے ڈرتے رہو اور استقامت کے لیے توبہ استغفار کرتے رہو ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ