درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
اس کے نامۂ اعمال میں چڑھ گئیں۔ لہٰذا شیطان کہتا ہے کہ میری بزنس تو یہاں بالکل لاس (خسارہ) میں جارہی ہے لہٰذا توبہ کرنے والے کا تعاقب چھوڑدیتا ہے۔ شیخ کے مشورے سے گناہ کے ترک کےلیےصدقہ کرنا نہایت مفید ہے۔ ایک شخص یوپی میں کپڑا بیچتا تھا، میرا پیر بھائی تھا۔ اس نے اپنا واقعہ سُنایا کہ اس نے حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم سے گزراش کی کہ حضرت! مجھے بدنظری کی سخت عادت ہے اور میرا کپڑے کا کاروبار ہے جہاں اکثر عورتیں ہی خریدنے آتی ہیں اور وہ ہر کپڑے میں ’’فی‘‘ نکالتی رہتی ہیں کہ اس میں یہ خرابی ہے اور اس میں وہ۔ ان سے بات بھی کرنا پڑتی ہے۔ حضرت ہردوئی امت برکاتہم نے فرمایا کہ نظر نیچی کرکے سودا دے دو۔ ان کو غور سے مت دیکھو جیسے ریل گزرتی ہے تو درختوں کو تو دیکھتے ہیں مگر پتے نہیں گنتے ایسے ہی تم اچٹی پچٹی سطحی نظر ڈالو کہ حسن کا ادراک نہ ہو اور اس کی ناک کے اٹھان کی پیمایش مت کرو اور آنکھوں کو مت ناپو کہ وہ کتنی بڑی ہیں۔ پھر توبہ اور استغفار کرو اور اگربدنظری ہوجائے تو پانچ روپیہ فی نظر صدقہ کرو اور صدقہ میرے مدرسہ میں بھیجو کیوں کہ بعض وقت میں وہ ظالم صدقہ بھی ان ہی معشوقوں پر خرچ کرتا ہے۔ جو نمکین یا نمکینہ اس کو پسند آئی اسی پر صدقہ کردیتا ہے اور اس شعر کا مصداق ہوجاتا ہے ؎ میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں آپ بتایئے بزرگوں کی نظر کہاں تک جاتی ہے۔ حضرت نے سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ خیرات بھی انہیں ہی دے دے لہٰذا فرمایا کہ میرے مدرسہ میں بھیجو۔ اس نے ایک دن دس بدنظری کی تو پچاس روپیہ بھیجنا پڑا۔ اس نے سوچا کہ پچاس ہی روپے تو آمدنی ہوتی ہے اگر یہی خیرات کروں گا تو کھاؤں گا کہاں سے، بیوی بچے بھوکے مریں گے لہٰذا اس نے پانچ نظر کم کردیا پھر بھی آدھی آمدنی نکل گئی تو گوشت روٹی میں کمی آگئی دال پر آگیا۔ غرض اس طرح آہستہ آہستہ یہ عادت چھوٹ گئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ تین سال ہوگئے