درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مانگنی چاہیے کیوں کہ اگر اپنے شیخ کو حقارت سے دیکھے گا تو وہ شخص کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔ ملّا علی قاری فرماتے ہیں مَنِ اعْتَرَضَ عَلٰی شَیْخِہٖ وَنَظَرَ اِلَیْہِ اِحْتِقَارًا فَلَا یُفْلِحُ اَبَدًا؎ جس نے اپنے شیخ پر اعتراض کیا اور اس کو محتقرانہ نظر سے دیکھا تو یہ شخص کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ایسے ہی جب کسی حسین کو دیکھ کر نفس میں خوشی کی لہریں اٹھیں تو اللہ سے فوراً ڈر جاؤ اور سمجھ لو کہ یہ وہی کنویں کا اندھیرا ہے جو تقلیبِ ابصار سے بہترین باغ معلوم ہورہا ہے۔ اس سے توبہ کرو کیوں کہ نافرمانی سے خوش ہونا یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے وفائی ہے۔ جب نفس کسی حسین کو دیکھ کر خوشی امپورٹ کرے، درآمد کرے، جو حرام خوشیاں اور بدمستیاں آئیں تو نظر ہٹا کر نفس کو کوئی تکلیف دہ بات یاد دلادو، دوزخ کی آگ کا تصور کرو، قبر کی منزل یا قیامت کی پیشی کو یاد کرو یا تنہائی میں جاکر اپنی کھوپڑی پر تین جوتے لگالو کہ کیوں خوش ہوا، نفس کو فوراً اتنا غم دو کہ توازن اور بیلنس صحیح ہوجائے اور غم پہنچانے کا ایک اور راستہ بزرگوں نے بیان کیا ہے کیوں کہ بعض وقت نفس دوزخ اور عذابِ قبر اور قیامت کی پیشی وغیرہ سے بھی متأثر نہیں ہوتا وہ پاگل سا ہوجاتا ہے لہٰذا اس نفس کو غم دینے کا بہترین اور مجرّب علاج مشایخ نے بتایا کہ فوراً وضو کرو اور آٹھ دس رکعات نفس سے پڑھوالو۔ بس یہ رکعات سارے مراقبوں سے بھاری پڑیں گی۔ پھر شیطان بھی پیچھا چھوڑ دیتا ہے کہ اس سے بدنظری تو میں نے کرائی اور میں نے کوشش کرکے فوکس ڈالا، اس حسین کے چہرے پر مسمریزم کیا جس سے وہ چار آنہ حسن ان کو سولہ آنہ نظر آیا۔ لال لال گالوں کو اور زیادہ لال دکھاکر لالوں کو لالہ زار بنادیا اور یہ لالے جان کے چھالے ہیں جس سے ان کی جان کے ہی لالے پڑگئے لیکن اس نے اشکبار آنکھوں سے توبہ کرلی اور توبہ سے خطا مُعاف ہوگئی اور آٹھ دس رکعات مزید پڑھ لیں اور کچھ صدقہ خیرات بھی کردیا جس سے اللہ کا غضب ٹھنڈا ہوتا ہے اِنَّ الصَّدَقَۃَ لَتُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِّ ؎ یہ سب نیکیاں مستزاد ------------------------------