درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
کے چاند جیسے چہروں کو کابوس (ڈراؤنی شکل) دکھاتا ہے اور کُفر کے تاریک کنویں کو خوش نما باغ دکھاتا ہے۔ مولانا رومی دوسرے شعر میں فرماتے ہیں ؎ اشقیا را دیدۂ بینا نبود نیک و بددر دیدہ شاں یکساں نمود بدبخت لوگوں کی چشمِ بصیرت خراب تھی اور ظاہری بصارت باطنی بصارت کے تابع ہے پس فسادِ باطن اور فسادِ قلب کے سبب ان کی آنکھوں میں نیک وبد کی پہچان نہ تھی اور بُروں کو نیک اور نیکوں کو بُرا سمجھنے لگے ؎ ہمسری با انبیاء برداشتند اولیاءرا ہمچو خود پنداشتند اپنی شقاوت اور کور باطنی (بدبختی اور بصیرت کے اندھے پن) اور قلبی فساد یعنی عجب و تکبر کے سبب انبیاء کی برابری کرنے لگے اور اولیاء اللہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور ان کو اپنی طرح قیاس کیا جیسا کہ حکایت ہے کہ ایک حبشی نے جنگل میں ایک آئینہ گرا ہوا دیکھا اور اس کے اندر اپنی کالی صورت لمبے لمبے دانت اور موٹے موٹے ہونٹوں کو دیکھ کر آئینہ کو گالی دے کر کہا کہ کمبخت بدصورت منحوس!تیری ایسی بھدی شکل ہے جبھی تو جنگل کے ویرانے میں کسی نے تجھے پھینک دیا ہے۔ اگر حسین ہوتا تو گھروں میں لوگ تجھ کو آراستہ کرکے رکھتے اس ظالم کو یہ خبر نہ تھی کہ اس آئینہ میں خرابی نہ تھی بلکہ اس کی اپنی ہی صورت کا عکس تھا۔ چناں چہ بصیرت کے اسی اندھے پن کے سبب ابوجہل کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مُبارک نہایت بُرا نظر آتا تھا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بصیرتِ صحیحہ یہ فیصلہ کررہی تھی کَانَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ فِیْ وَجْھِہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مُبارک میں مجھ کو آفتاب چلتا ہوا نظر آتا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور شامتِ عمل سے جب اللہ کا قہر نازل ہوجاتا ہے تو اسی طرح اولیاء کی معرفت بھی نہیں ہوتی خصوصاً اللہ سے اپنے شیخ کی محبت و عظمت