درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اللہ تعالیٰ کے تصرفات اور قدرتِ قاہرہ کو بندوں کے ناز و تکبر کی شکست وریخت کے لیے مولانا اس شعر میں دوسری مثال سے بیان کررہے ہیں کہ اے شخص! تو نے تیر کو داہنی طرف چلایا مگر تُو نے دیکھا کہ تیراوہ تیر بائیں طرف اُڑا جارہا ہے۔ مطلب یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت سے استمداداور دعا اور تضرع نہیں کرتے ہو بلکہ ناز کرتے ہو اپنے کمالات پر۔ پس اے سالک! تجھے اپنی تدبیر پر ناز نہ کرنا چاہیے۔ تدبیر کا مفید نتیجہ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے لہٰذا تم کو تو اللہ سے دُعا کرکے تیر مارنا چاہیے تھا کہ یا۱للہ! میرا تیر میری منزل تک پہنچادیجیے یعنی میری تدبیر کو اپنی منزلِ قُرب تک رسائی نصیب فرمائیے اور عجب و کبر سے تحفظ فرمائیے کیوں کہ عجب و کبر کی نحوست سے جب اللہ کی رحمت اور نصرت ہٹ جاتی ہے تو تدبیر کا اثر اُلٹا ہوجاتا ہے ۔ از قضا سرکنگبیں صفرا فزُود روغنِ بادام خشکی می نُمود مولانا فرماتے ہیں کہ سکنجبین جو باعتبارِ تدبیر کے قاطعِ صفراء ہے قضائے حق سے باعتبارِ انجام زیادتئ صفراء کا سبب بن جاتی ہے ؎ گہہ چو کا بو سے نماید ماہ را گہہ نماید روضہ قعرِ چاہ را ارشاد فرمایا کہ خود بینی اور تکبر کی نحوست سے قلب کی بصیرت میں فساد آجاتا ہے جس کی وجہ سے بصارت فاسد ہوجاتی ہے اور ایسا شخص حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ اہل اللہ اور مقبولانِ بارگاہ کے چہرۂ انور بدبختوں کو منحوس اور بُرے نظر آتے ہیں اور اہلِ باطل کے چہرے ان کو محبوب اور منوّر معلوم ہوتے ہیں۔ اس ابتلاء کا سبب ان کے باطن کا کبر اور اعراض ہوتا ہے کَمَا قَالَ تَعَالٰی: بَلۡ طَبَعَ اللہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ؎ ان کے مسلسل کُفر اور کُفر پر ہمیشہ قائم رہنے کی نیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی اور یہ ظلم نہیں ہے کیوں کہ ان کا ارادہ حق کو قبول کرنے کا تھا ہی نہیں اس لیے مہر لگادی گئی لہٰذا یہ عذابِ قہر ہے جو انبیاء اور اولیاء ------------------------------