درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ا ٓپ بھی تو مرد ہیں تو کہا کہ واللہ! کیا میں بھی مرد ہوں۔تو حضرت نے فرمایا: صحبت کا اتنا اثر ہوتا ہے کہ اس ظالم کو اپنا مرد ہونا یاد نہ رہا۔ اسی لیے دیہات میں رہنے کو ظلم کہا گیا ہے۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے مَنْ سَکَنَ الْبَادِیَۃَ جَفَا؎ جو گاؤں میں رہتا ہے اس نے اپنے اوپر ظلم کیا کیوں کہ گاؤں میں اکثر مدارس اور دارالعلوم نہیں ہوتے اور وہاں بڑے عُلماء اور بزرگانِ دین نہیں رہتے، علمی ماحول نہیں ہوتا، زیادہ تر جہلاء میں رہنا پڑتا ہے وہاں دین سیکھنے کا اور دینی کام کرنے کا موقع نہیں ہوتا۔ اس لیے شہر میں رہنے میں خیر ہے جہاں بڑے بڑے عُلماء ہوں وہاں دین کی خدمت کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ سورۂ یوسف کی تفسیر میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماں باپ گاؤں سے جب شہر میں آگئے تو اُنہوں نے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ مُفسرین لکھتے ہیں کہ شہری زندگی کے گاؤں کی زندگی سے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گاؤں میں جسمانی عافیت بھی نہیں ہوتی اور دین کی ترقی بھی نہیں ہوتی۔ جو خود بھی بڑا اللہ والا ہوگا آہستہ آہستہ کمزور ہوجائے گا کیوں کہ اسے میدان نہیں ملے گا دین پھیلانے کا۔ گاؤں میں نماز باجماعت تک کی پابندی نہیں ہوتی۔ بس دن بھر اپنی کھیتی باڑی کرکے آئے اور رات کو الگ الگ نماز پڑھ کے سوگئے۔اس شعر میں مولانا اللہ تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ اور تصرفاتِ عجیبہ کو ایک مثال سے بیان فرمارہے ہیں کہ مثل ہرن کے شکاری کے بعض سالکین حصولِ نسبت مع اللہ کے لیے سلوک طے کرنا شروع کرتے ہیں لیکن ناز و تکبر کے سبب خود نفس کے جنگلی سور کا شکار ہوجاتے ہیں اور عشقِ مجازی کے عذاب میں مبتلا ہوکر اللہ تک نہیں پہنچ پاتے اس لیے مولانا نصیحت فرماتے ہیں کہ ناز و نخرے مت کرو، اپنے کو حقیر و ذلیل و کمزور سمجھو اور اللہ تعالیٰ سے ہر وقت پناہ مانگتے رہو کہ اے خُدا! اپنی رحمت سے ہمیں اپنی حفاظت میں لے لے اور اپنی منزلِ قرب تک رسائی نصیب فرما۔ دوسرے شعر میں مولانا فرماتے ہیں ؎ تیر سُوئے راست پرّانیدۂ سُوئے چپ رفتہ است تیرت دیدۂ ------------------------------