درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اَے جلیل اشکِ گناہ گار کے اِک قطرہ کو ہے فضیلت تری تسبیح کے سو دانوں پر تو مولانا فرماتے ہیں کہ توبہ کی برکت سے اب میں نیک ہوگیا ہوں اور مُردہ کے عشق ومحبت سے پاک ہوگیا۔ اے دنیا والو! اب میں گدھ نہیں ہوں، اب میں کر گس نہیں رہا اب میں اس حیّ و قیّوم کے قُربِ اعلیٰ سے مُشرف ہوں اور کرگسی صفت سے مجھے اللہ تعالیٰ نے پاک فرمادیا ہے۔ باز سُلطان اور ہوتا ہے پھر وہی دوسروں کا شکار کرکے انہیں سُلطان تک لے جاتا ہے، کرگس نہیں لے جاسکتا لہٰذا بازِ شاہی سے دوستی کرو وہ تمہیں سلطان تک پہنچادے گا اور اگر کرگس سے دوستی کرو گے تو وہ تم کو لے کر کسی مُردار کے پاس پہنچ جائے گا۔ اس لیے مولانا رومی نے فرمایا کہ ؎ یارِ مغلوباں مشوہیں اے غوی یارِ غالب جُوکہ تا غالب شوی ہیں معنیٰ خبردار اور غوی معنیٰ نادان، بے وقوف، سرکش یعنی اے بے وقوف اور نادان جو خود نفس و شیطان سے مغلوب ہیں ان کو اپنا یار مت بناؤ۔ جو پیر عورتوں سے ٹانگیں دبوارہے ہیں، چرس پی رہے ہیں، سٹے کا نمبر بتارہے ہیں، طبلہ اور ڈھولک پر قوالی سُن رہے ہیں، نہ نماز ہے نہ روزہ، یہ تو خود مغلوب ہیں، نفس و شیطان کے ایجنٹ ہیں ان کے قریب بھی نہ جاؤ ورنہ تم بھی مغلوب ہوجاؤ گے لہٰذا ایسے لوگوں کو دوست بناؤ جو کہ اپنے نفس کے رذائل پر غالب آچکے۔ اگر تم کو اپنے نفس پر غالب ہونا ہے تو ایسے لوگوں کی صحبت میں رہو جو اپنے نفس پر غالب آچکے ہیں۔ تو غالب کی صحبت تم کو غالب کردے گی یعنی ان کی صحبت کی برکت سے تم بھی اپنے نفس پر غالب ہوجاؤ گے۔ حکیمُ الامّت نے وعظ میں اس مضمون کو بیان فرمایا کہ ایک آدمی ایک نواب صاحب کے یہاں ملازم تھا اور بیگمات کی خدمت اس کے سپرد تھی۔ کئی سال تک عورتوں میں رہا، باہر نکلا ہی نہیں۔ ایک دن محل میں ایک سانپ نکل آیا تو بادشاہ کی بیویوں نے کہا کہ ارے بھئی! کسی مرد کو بلاؤ جو اس کو مارے تو وہ مرد بھی چیخنے لگا کہ ارے بھئی! کسی مرد کو بلاؤ۔ بیگمات نے کہا کہ