درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
شاہبازیت سے تبدیل ہوجاتی ہے۔ جب یہ تبدیلی ہوتی ہے اس مقامِ تبدیلی کو مولانا رومی رحمۃُاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ کی دعاؤں سے اور طالب کی ہمت اور ارادے سے جب اللہ کا فضل ہوجاتا ہے تو سالک کو غیر اللہ سے نجات مل جاتی ہے۔ تب فرماتے ہیں ؎ بازِ سُلطانم گشم نیکو پیم فارغ از مُردارم و کرگس نیم یہ گشم گشتم تھا مگر ’’ت‘‘کی وجہ سے وزن گر رہا تھا لہٰذا ’’ت‘‘ کو حذف کردیا گیا ضرورت شعری کی وجہ سے۔ فرماتے ہیں کہ میں اپنے سلطان کا یعنی اپنے اللہ کا بازِ شاہی ہوگیا ہوں، ان کے قُرب سے مُشرف ہوگیا ہوں اور لذّتِ قُربِ یار نے مجھے بیگانۂ اغیار کردیا ہے۔ یعنی میں تمام گناہوں سے توبہ کرچکا ہوں اور توبہ کی سواری عجیب سواری ہے جس پر بیٹھ کر ہر شخص پستی سے پھر بُلندی کی طرف اُڑسکتا ہے ؎ مرکبِ توبہ عجائب مرکب است تا فلک تا زد بیک لحظہ زپست مولانا فرماتے ہیں کہ توبہ کی سواری عجیب بابرکت سواری ہے جو گناہ گاروں کو آنِ واحد میں گُناہ کی ذلّت کےغار سے نکال کر حق تعالیٰ کی بارگاہ قُرب میں پہنچادیتی ہے۔ گناہ گاروں کے آہ و نالوں سے دریائے رحمت میں اس طرح جوش آتا ہے کہ کافرِ صد سالہ دم میں فخرِ اولیاء بن جاتا ہے ؎ جوش میں آئے جو دریا رحم کا گبرِ صد سالہ ہو فخر اولیاء حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لَأَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ؎ گناہ گاروں کا رونا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی بلند آوازوں سے زیادہ محبوب ہے ؎ ------------------------------