درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تجھے مُشکل نہیں مسکیں کو سلطانِ جہاں کردے کرم سے اپنے اختر کو ترا شمس و قمر کرنا یہی ہے راستہ اپنے گناہوں کی تلافی کا تری سرکار میں بندوں کا ہر دم چشم تر کرنا کیست ابدال؟ آں کہ اُومبدل شود خمرش از تبدیلِ یزداں خل شود ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ابدال کون ہے؟ جس کے اخلاق بدل جائیں، جس کا ظاہر و باطن متبعِ سنت و شریعت ہوجائے اور جس کے اخلاقِ رذیلہ کی شراب اللہ کے فضل و مشیت سے اخلاقِ حمیدہ کے سرکہ سے تبدیل ہوجائے۔ دنیوی شراب میں اگر سرکہ ڈال دیا جائے تو شراب سرکہ بن جاتی ہے جس کا چکھنا حرام تھا، جس کو پی کر لوگ بدمست اور بدعقل ہوتے تھے اب سرکہ بن کر نعم الادام یعنی بہترین سالن بن گئی جس کو کھاکر اب لوگ قوت اور صحت حاصل کرتے ہیں اسی طرح جس کو اللہ تعالیٰ تبدیل کرنے کا فیصلہ فرماتے ہیں اس کی گناہوں کی بدمستیاں اور تقاضائے معصیت وغیرہ جملہ اخلاقِ حمیدہ سے بدل جاتے ہیں۔ کل تک جو اللہ سے غافل تھا اب ہمہ وقت اللہ کی یاد سے مست ہے اور ایک مخلوق اس سے اللہ کی محبت حاصل کرنے کو اس کے پیچھے پیچھے پھرتی ہے اس کی حیات باعثِ حیاتِ دیگراں ہوتی ہے۔ پس حقیقی ابدال وہی ہے جو بدل جائے جس کے ظاہر و باطن کو تعلق مع اللہ علی سطح الولایۃ والصدیقیت نصیب ہوجائے۔ اس کی دلیل اس کے زبانی دعوے نہیں بلکہ اس کی استقامت علی التقویٰ ہوگی کہ کسی حال میں وہ اللہ تعالیٰ کے دائرۂغلامی سے نہیں نکلے گا ورنہ محض زبا نی دعوؤں سے کیا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے حضرت حکیمُ الامّت تھانوی رحمۃُاللہ علیہ کو لکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک شخص ہے جو دعویٰ کرنے لگا ہے کہ وہ ابدال ہے۔ حضرت حکیمُ الامت نے ہنس کر فرمایا کہ جی ہاں یہ پہلے گوشت تھا اب دال ہوگیا اور فرمایا کہ اس کا یہ دعویٰ دلیل