درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
تحفہ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی درخواست کرتے ہیں کہ فَاعْفُ عَنِّی ہم گناہ گاروں کو معاف فرماکر اپنا محبوب عمل ہم پر جاری کردیجیے۔ آپ کا محبوب عمل ہوجائے گا اور ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا لہٰذا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاء تعقیبیہ لگادی کہ اے اللہ! معاف کرنے میں دیر نہ کیجیے، جلد معاف کردیجیے کیوں کہ معاف کرنا آپ کو خود محبوب ہے ؎ من نگویم کہ طاعتم بپذیر قلمِ عفو برگناہم کش میں یہ نہیں کہتا کہ آپ میری طاعتوں کو قبول فرمالیں کیوں کہ میری کوئی طاعت قبولیت کے قابل نہیں، بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے گناہوں پر قلمِ عفو پھیر دیں، میرے جرائم کو محو فرمادیں ؎ کیمیا داری کہ تبدیلش کُنی گرچہ جوئے خوں بود نیلش کُنی ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی دُعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! اگرچہ میرے باطن میں اخلاقِ رذیلہ کا دریائے خون بہہ رہا ہے یعنی میرے اعمال و اخلاق نہایت خراب ہیں لیکن آپ کی رحمت ایسا عجیب کیمیا رکھتی ہے کہ آپ ہمارے اخلاقِ رذیلہ کے دریائے خون کو اخلاقِ حمیدہ کا دریائے نیل بناسکتے ہیں یعنی ہماری سیئات کو حسنات سے اور ہمارے رذائل کو فضائل سے تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس مضمون پر احقر کے چند اشعار ؎ ترے دستِ کرم کی کیمیا تاثیر کیا کہیے کسی ذرّہ کو تیرا دم میں خورشید و قمر کرنا جو تیری راہ میں روباہ خصلت سے ہیں پسماندہ تجھے مُشکل نہیں ایسوں کو رشکِ شیرِِِ نَر کرنا