درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
فرمادے اور اپنے خزانوں کے ختم ہونے کا جسے اندیشہ نہ ہو کیوں کہ غیر محدود خزانوں کا مالک ہے اور اپنے خزانوں سے بے نیاز ہے، ہمارے لیے ہی وہ خزانے ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے اللہ! آپ بہت معافی دینے والے ہیں اور کریم بھی ہیں کہ نالائقوں کو اور ناقابلِ معافی کو معاف فرمادیتے ہیں تُحِبُّ الْعَفْوَ اور صرف معاف ہی نہیں فرماتے بلکہ اپنے بندوں کو معاف کرنا آپ کو نہایت محبوب ہے اَیْ اَنْتَ تُحِبُّ ظُہُوْرَ صِفَۃِ الْعَفْوِ عَلٰی عِبَادِکَ؎۔ تُحِبَّ الْعَفْوَ کی یہ شرح ملّا علی قاری رحمۃُاللہ علیہ نے کیا عمدہ فرمائی کہ اپنے بندوں پر اپنی مغفرت کی صفت ظاہر کرنا آپ کو نہایت محبوب ہے یعنی اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کرنے کا عمل آپ کو نہایت پیارا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے مزاجِ الوہیت اور مزاجِ ربوبیت کو کون پہچان سکتا ہے لہٰذا اپنی امّت کو معافی دلانے کے لیے آپ کس کس عنوان سے حق تعالیٰ کی ثنا فرمارہے ہیں کیوں کہ ثَنَاءُ الْکَرِیْمِ دُعَاءٌ کریم کی تعریف کرنا اس سے مانگنا ہے جیسے کسی کریم سے کہا جائے کہ آپ کسی کو محروم نہیں کرتے تو اس کے معنیٰ ہیں کہ ہمیں بھی عطا فرمادیں۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے اُمّت کو معافی دلوانی تھی اس لیے آپ نے حق تعالیٰ کی صفتِ عفو کا واسطہ دیا کہ اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کے عمل کو آپ خود محبوب رکھتے ہیں لہٰذا معاف کرنے کے عمل کو جاری کرنے کےلیے کوئی سبب، کوئی تحفہ تو ہونا چاہیے، لوگ بادشاہوں کے پاس جاتے ہیں تو شاہوں کے مزاج کے موافق تحائف لے کر جاتے ہیں۔ آپ تو بادشاہوں کے بادشاہ ہیں، سلطان السلاطین ہیں، ہم آپ کے مزاج کو کیسے پہچان سکتے تھے کہ ہم حادث آپ قدیم، ہم فانی آپ لافانی یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان ہے کہ ہم کو بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب عمل ہم پر جاری ہونے کا راستہ توبہ و ندامت ہے لہٰذا ہم گناہ گار اپنے گناہوں پر ندامت اور توبہ کی گٹھڑی کا ------------------------------