درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
ہے جو اپنے کرم سے نالائقوں کو بھی محروم نہ کرے اور ناقابل معافی کو معاف فرمادے اور محدّثین نے کریم کے چار معانی بیان کیے ہیں: ۱) اَلْمُتَفَضِّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ وَالْمِنَّۃِ؎ کریم وہ ہے جو اپنے کرم سے نالائقوں کو بھی محروم نہ کرے، جس کا حق نہ بنتا ہو اس کو بھی عطا فرمادے۔ ۲) اَلْمُتَفَضِّلُ عَلَیْنَا بِدُوْنِ مَسْئَلَۃٍ وَلَا سُؤَالٍ جو بغیر سوال بغیر مانگے ہوئے ہم پر مہربانی کردے۔ بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر مانگے عطا فرمائی ہیں جیسے ہمارا ایمان محض حق تعالیٰ کا کرم ہے اس میں ہماری کسی محنت کا دخل نہیں، عالمِ ارواح میں ہم بے زبان تھے، ہم نے سوال نہیں کیا تھا کہ اے اللہ! ہمیں مسلمان کے گھر میں پیدا کیجیے لیکن بدونِ طلب او ربدونِ سوال مسلمان کے گھر میں پیدا کرکے ایمان عطا فرمادیا اور مُفت میں جنّت کا ٹکٹ دے دیا۔ اسی طرح ہر لمحہ بے شمار افضال و عنایات بدونِ سوال عطا فرماتے ہیں۔ ۳) اَلْمُتَفَضِّلُ عَلَیْنَا فَوْقَ مَا نَتَمَنّٰی بِہٖ یعنی جو ہماری تمناؤں سے زیادہ دے دے جیسے ایک کریم سے کسی نے ایک بوتل شہد مانگا اس نے ایک مشک دے دیا۔ کسی نے کہا کہ اس نے تو ایک بوتل مانگا تھا۔ آپ نے پوری مشک کیوں دی۔ کہا کہ اس نے مانگا اپنے ظرف کے مطابق میں نے دیا اپنے ظرف کے مطابق۔ جب دنیاوی کریموں کا یہ حال ہے جن کو کرم کی ایک ذرّہ بھیک مل گئی ہے تو اس کریم حقیقی کے کرم کا کیا ٹھکانا ہے ؎ میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہادیے ہیں دُربے بہادیے ہیں ۴) اَلْمُتَفَضِّلُ عَلَیْنَا وَلَا یَخَافُ نَفَادَ مَاعِنْدَہٗ؎ کریم وہ ہے جو ہمیں بے انتہا عطا ------------------------------