درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
۲) تَسْھِیْلُ طَرِیْقِ الْخَیْرِ وَ تَسْدِیْدُطَرِیْقِ الشَّرِّ خیر کے راستے آسان ہوجائیں اور شر کے راستے مسدود ہوجائیں۔ ۳) خَلْقُ الْقُدْرَۃِ عَلَی الطَّاعَۃِ؎طاعت اور فرماں برداری کی قوت پیدا ہوجائے۔ یہ شرح تہذیب کی عبارت ہے۔ نفس نافرمانی سے بچ نہیں سکتا جب تک یہ توفیق اسے حاصل نہ ہو کیوں کہ نفس اَمـَّارَہْ بِالسُّوْءِ ہے یعنی کَثِیْرُالْاَمْرِ بِالسُّوْءِ ہے، گناہوں کا بہت زیادہ حکم کرنے والا، برائیوں پر انتہائی حریص ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃُ اللہ علیہ نے روح المعانی میں نفس کی یہ تعریف کی ہے اَلنَّفْسُ کُلُّہَا ظُلْمَۃٌ وَسِرَاجُہَا التَّوْفِیْقُ؎ نفس سراپا ظلمت ہے اور اس کا چراغ توفیق ہے۔ جب توفیق نصیب ہوجاتی ہے تو یہ روشن ہوجاتا ہے اور مرقاۃ میں نفس کی یہ تعریف کی گئی ہے اَلْجَسَدُ کَثِیْفٌ وَالرُّوْحُ لَطِیْفٌ وَالنَّفْسُ بَیْنَہُمَا مُتَوَسِّطَۃٌ؎جسم کثیف ہے، روح لطیف ہے، اور نفس ان دونوں کے درمیان متوسط ہے، اعمالِ صالحہ سے لطیف ہوجاتا ہے اور اعمالِ سیٔہ سے کثیف ہوجاتا ہے۔ اور نفس کی جو تعریف حضرت حکیمُ الامّت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃُاللہ علیہ نے کی ہے۔ نہایت عجیب و غریب اور جامع ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ نفس نام ہے مرغوباتِ طبعیہ غیر شرعیہ کا، نفس کی وہ مرغوبات، جن کی شریعت اجازت نہ دیتی ہو یعنی نفس کی وہ پسندیدہ باتیں جن سے اللہ راضی نہ ہو۔ نفس کی زشت خوئی تو لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِ سے منصوص ہے، اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ کَثِیْرُ الْاَمْرِ بِالسُّوْءِ ہے، نافرمانیوں کے زہریلے مادے اور گناہوں کے شدید تقاضے اس کے اندر ہیں اگر اِلَّا مَارَحِمَ رَبِّیْ کا سایہ نہ ہو تو اس کے شر سے انسان بچ نہیں سکتا اسی لیے اس شعر میں مولانا اللہ تعالیٰ سے اس کی زشت خوئی اور تقاضائے ------------------------------