درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
خبیثہ کو عرض کرکے دراصل اللہ تعالیٰ کے سایۂ رحمت کی درخواست کررہے ہیں کےکہ اپنی رحمت سے مجھے اس کے شر سے بچالیجیے۔ در کمالِ زشتیم من منتہی لطفِ تو در فضل و درفن منتہی اے اللہ!میں بُرائیوں کے کمال میں انتہا کو پہنچا ہوا ہوں، منتہی فی السوء ہوں، برائیوں میں، میں اپنی مثال آپ ہوں اور آپ کا کرم و مغفرت و معافی بخشش و در گزر میں کمال غیر محدود کامقام رکھتا ہے ؎ حاجتِ ایں منتہی زاں منتہی تو برآ ر ا ےغیرتِ سرو سہی اے خُدا! میرا یہ نفس جو بُرائیوں اور رذائل میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے اس مُنْتَہِیْ فِی الرَّذَائِلْ کی اصلاح اپنے بے پایاں اور غیر متناہی لطف و کرم سے فرمادیجیے کہ آپ خالقِ سرو سہی ہیں جو حُسن و دلکشی میں ضرب المثل ہیں پس اخلاقِ رذیلہ کے سبب میرا نفس کریہہ المنظر ہے اس کو اخلاقِ حمیدہ سے آراستہ کرکے رشک ِسروسہی بنادیجیے۔