درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
مسلمانوں سے حُسنِ ظن کا حکم ہے تو خاصانِ خُدا جو نفس کی آلایشوں سے پاک ہوگئے اور اللہ پر اپنی فداکاریوں، جانبازیوں اور جاں نثاریوں سے اللہ کے پیارے ہوگئے ان سے بدگمانی کرنا کس قدر جرمِ عظیم اور موجب ِ غضبِ الٰہی ہوگا۔ اس لیے مولانا فرماتے ہیں ؎ متہم کم کن بہ دز دی شاہ را عیب کم گو بندۂ اللہ را خاصانِ خُدا پر عیب گوئی نہ کرو۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃُاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ فارسی میں کم مُطلق نفی کے لیے آتا ہے قلّت اور کمی کے لیے نہیں۔ لہٰذا اپنے عیب کو زیادہ اہمیت دو، اپنے گُناہ کو جو یقینی درجے میں داخل ہے اس کی فکر کرو، خود کو ملامت کرو، استغفار و توبہ کرو، دوسرے کے عیب پر نظر پڑجائے تو یہی گمان رکھو کہ اس کی توبہ ہماری توبہ سے افضل ہوگی، اور اس کا قُرب ہمارے قُرب سے اعلیٰ ہوگا۔ شیخ سعدی شیرازی کے پیر و مرشد حضرت شیخ شہابُ الدین سہروردی رحمۃُاللہ علیہ نے ان کو دو نصیحت کی تھی کہ کسی پر بُری نظر مت ڈالو اور اپنے اوپر اچھی نظر مت ڈالو یعنی دوسروں کو بُرا نہ سمجھو اور اپنے کو اچھا نہ سمجھو ؎ یکے آں کہ برغیر بدبیں مباش دویم آں کہ برخویش خودبیں مباش کیا عُمدہ نصیحت ہے سبحان اللہ! ارے اپنی فکر کرو کہ قیامت کے دن کیا ہوگا۔ حضرت حکیم الامّت تھانوی رحمۃُاللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اپنے گُناہوں کو کوڑھ سمجھو اور دوسرے کے گُناہوں کو زکام سمجھو۔ اپنے گُناہوں کو پھانسی کا مقدمہ سمجھو اور دوسرے کے گُناہوں کو میونسپلٹی کا چالان سمجھو۔ اگر کوئی پولیس والا کسی پر میونسپلٹی کا چالان کررہا ہے تو کیا اس پر وہ شخص ہنسے گا جس پر پھانسی کا مقدمہ قائم ہے؟ لہٰذا یہاں پر میرا ایک شعر سنیے ؎ نامناسب ہے اےدلِ ناداں اک جذامی ہنسے زکامی پر