درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہم بھی ا نسان، یہ بھی انسان جس طرح ہم غذا اور نیند کے محتاج ہیں یہ بھی محتاج ہیں۔ ہماری بھی ایک ناک ہے اور ان کی بھی ایک ناک ہے، جیسے دوکان ہمارے ہیں ویسے ہی ان کے بھی ہیں لہٰذا ان کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اس بدگمانی اور بصیرت کے اندھے پن سے بہت سے لوگوں نے انبیاء کی ہمسری کا دعویٰ کردیا ہے ؎ ہمسری با انبیاء برداشتند اولیاء را ہمچو خود پنداشتند اُنہوں نے کبھی انبیاء کے ساتھ برابری کا دعویٰ کردیا اور کبھی اولیاء کو اپنے برابر سمجھ لیا۔ مگر یہ اس دریائی گاؤ کی طرح سے ہیں جس کے اندر عقل نہیں تھی کہ وہ مٹی کے باطن میں چھپے ہوئے قیمتی موتی کا پتا کرلے ؎ اشقیا را دیدۂ بینا نبود نیک و بد دردیدہ شاں یکساں نمود بدبخت لوگ چشمِ بصیرت سے محروم تھے اس لیے نیک و بدان کو ایک جیسے نظر آئے اور وہ اہل اللہ کے باطن میں پوشیدہ نورِ نبوّت، نورِ ولایت اور نورِ نسبت کا موتی نہ دیکھ سکے۔ لہٰذا مولانا رومی نصیحت فرماتے ہیں کہ اے لوگو! تم جانوروں کی طرح اللہ والوں کا خالی جسم مت دیکھو بلکہ ان کے جسم میں جو قلب ہے اور قلب میں نسبت مع اللہ کا جو موتی ہے اس پر نظر رکھو جس کی قیمت زمین و آسمان بھی ادا نہیں کرسکتے، سورج و چاند بھی ادا نہیں کرسکتے، سلاطین کے تخت و تاج بھی ادا نہیں کرسکتے، پلاؤ اور بریانی کی لذّتیں بھی ادا نہیں کرسکتیں، مجانینِ عالم کی عشقیات اور لیلائے کائنات کے نمکیات بھی ادا نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ لامثل لہ ہے، اللہ بے مثل ہے لہٰذا ان کے نور نسبت کے حاملین بھی بے مثل ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس انمول موتی سے تم جانوروں کی طرح محروم نہ ہوجاؤ ورنہ پھر تم اللہ کے نور کی غذا سے محروم ہوکر بھوکے مرجاؤ گے یعنی تمہاری روحانی موت واقع ہوجائے گی۔ اہل اللہ سے بدگمانی کرنا محرومی و شقاوت کا دروازہ ہے، جب عام