درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ایک نہایت قیمتی مضمون بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح اس دریائی گاؤ کی خوشبو دار غذاء کھانے سے خوشبو ہی پیدا ہوتی ہے اسی طرح ؎ ہر کہ باشَد قوتِ او نورِ جلال چوں نہ زائد ازلبش سحرِ حلال وہ شخص جس کی غذا نورِ جلال یعنی ذکر و طاعت ہوگی اس کے ہونٹوں سے سحرِ حلال یعنی کلامِ مؤثر کیوں نہ پیدا ہوگا۔ تاجر لوگ اس موتی کی تلاش میں مٹکوں میں مٹی، گوبر بھوسا وغیرہ لے کر درختوں پر تیار بیٹھے رہتے ہیں۔ جب وہ دریائی گاؤ سمندر کے کنارے اپنا موتی اُگل کر چرنے کے لیے کچھ دور نکل جاتا ہے تو درخت کے اوپر سے تاجر لوگ اس موتی پر مٹی وغیرہ ڈال دیتے ہیں جس سے اندھیرا ہوجاتا ہے۔ اس اندھیرے سے گھبراکر وہ دریائی گاؤ بار بار موتی کی طرف آتا ہے لیکن کیچڑ کو دیکھ کر مایوس ہوکر بھاگ جاتا ہے، اس کی نگاہ کیچڑ کے اندر چھپے ہوئے موتی کو دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اس جانور کی طرح ابلیس ملعون نے حضرت آدم علیہ السلام کے صرف خاکی پتلے کو دیکھا اور تکبر سے سجدۂ تعظیمی سے انکار کیا اور حکمِ خداوندی پر اعتراض کیا کہ میں ناری ہوں اور یہ خاکی ہے اور کرۂ نار چوں کہ خاک سے اوپر ہے اس لیے آگ خاک سے افضل ہے اور تکبر کے سبب ہمیشہ کےلیےمردود ہوگیا اور بدبخت کو یہ نظر نہ آیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے جسدِ خاکی کے اندر خلافتِ الٰہیہ کا موتی چھپا ہوا ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اسی طرح بہت سے احمق بے وقوف اور جانور قسم کے لوگ اللہ والوں کے جسم کے اندر قلب میں ولایت اور نسبت مع اللہ کا جو موتی چھپا ہوتا ہے اس کو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور ان کی مٹی کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ جیسے ہم ہیں ویسے ہی یہ بھی ہیں ؎ گفت اینک مابشر ایشاں بشر ما وایشاں بستہ خوابیم و خوَر