درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
نافرمان لوگ ایسی گری ہوئی حرکتیں کرتے ہیں تو تعجب کی بات نہیں لیکن سالکین جو اللہ کا راستہ طے کررہے ہیں وہ ایسی ٹھوکر نہ کھائیں اور ذلیل اعمال میں مبتلا ہوکر اللہ سے دوری کے عذاب میں مبتلا نہ ہوں۔ اس لیے مولانا دُعا فرماتے ہیں ؎ یارِ شب را روز مہجوری مدہ جانِ قربت دیدہ را دُوری مدہ اے خُدا! جس کو آپ نے راتوں میں اپنادوست بنالیا یعنی رات میں توفیقِ عبادت دی اس کو جدائی کا دن نہ دکھائیے ۔ جس جان نے آپ کے قُرب کا مزہ چکھ لیا اس کو گُناہوں میں ابتلاء سے دوری کا عذاب نہ دیجیے۔ کیسی درد بھری دُعا ہے یہ۔ اپنے رات کے دوست کو جُدائی کا دن نہ دکھائیے یعنی ہر گُناہ سے اس کی حفاظت فرمائیے اور جس سے خطا ہوجائے تو توفیقِ توبہ نہایت اعلیٰ مقام سے عطا فرمائیے۔ اپنے آنسوؤں میں خُونِ دل کو باہم کرنے کی اسے توفیق دیجیے تاکہ وہ جان جو گُناہ کرکے آپ سے دوری کے عذاب میں مبتلا ہوگئی دوبارہ آپ کے قُرب کا مزہ چکھ لے جیسے مچھلی پانی سے دور ہوکر بے چین ہوگئی تھی دوبارہ پانی کو پاکر چین پاجائے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جس طرح چمگادڑ کو آفتاب دُشمنی کی تکویناً یہ سزا دی گئی ہے کہ وہ اندھیروں میں اُلٹا لٹکا ہوا ہےاور جس منہ سے کھاتا ہے اسی منہ سے ہگتا ہے،اس کا امپورٹ اور ایکسپورٹ آفس ایک ہی ہے،اسی طرح جو لوگ اہل اللہ سے دشمنی رکھتے ہیں اور ان کی غیبتیں کرتے ہیں یہ بھی مثلِ چمگادڑ کے جہالت اور قہر و عذاب کے اندھیروں میں اُلٹے لٹکے ہوئے ہیں۔ جس منہ سے یہ اللہ کا نام لیتے ہیں اسی منہ سے اہل اللہ کی غیبت اور دُشنام طرازی کی غلاظت نکالتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے مولانا رومی نے ایک اور تمثیل پیش کی ہے۔ ایک دریائی جانور جو دریا اور سمندر میں رہتا ہے اس کو دریائی گاؤ کہتے ہیں۔ اس کے سینے میں ایک نہایت قیمتی موتی ہوتا ہے۔ رات کو دریا کے کنارے جنگل میں وہ دریائی گاؤ اپنے منہ سے اس موتی کو نکال کر زمین پر رکھتا ہے اور اس کی روشنی میں سنبل وسوسن و ریحان وغیرہ خوشبو دار پھول اور نباتات چرتا ہے اس لیے اس کا پاخانہ مُشک و عنبر کی طرح خوشبودار ہوتا ہے۔ اس مثال سے مولانا