درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
سورج کا دشمن ہے۔ آفتاب دشمنی کی اس کو یہ سزا دی گئی ہے کہ اندھیروں میں اُلٹا لٹکا ہوا ہے اور جس منہ سے کھاتا ہے اسی منہ سے ہگتا ہے اگر اس سے یہ کمینی حرکتیں ہوتی ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن ؎ بازِ سُلطاں دیدہ را بارے چہ بود وہ بازِشاہی جس نے بادشاہ کو دیکھا ہو، سلطان دیدہ آنکھیں رکھتا ہو، ہر وقت بادشاہ کی کلائی پررہتا ہو اس ظالم کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ بھی چمگادڑ کی طرح گندی نالیوں میں غلاظت چاٹ رہا ہے یعنی جو شخص اللہ والوں کی صحبت میں رہتا ہے، اللہ اللہ کرتا ہے، جس کی جان نے اللہ کے قُرب کا مزہ چکھ لیا اس کو کیا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر عورتوں کو گھور رہا ہے، لڑکوں کو گھور رہا ہے، آفتاب کے ہوتے ہوئے چراغوں پر فریفتہ ہورہا ہے، غیر اللہ سے دل لگاکر اللہ کو ناراض کررہا ہے۔ یہ مر ض اتنا عام ہے کہ کوئی گاؤں اور کوئی شہر نہیں بچا، تعلیم یافتہ ہو یا جاہل، جوان ہو کہ بوڑھا سب اس میں مبتلا ہیں الاّ ماشاء اللہ یہاں تک کہ بعض مولوی جوان لڑکیوں کو بے پردہ قرآنِ پاک پڑھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ثواب کا کام کررہے ہیں۔ فرانس میں ایک لڑکی نے کہا: مولانا! آپ یہ جو ہم کو دیکھ رہے ہیں اور یَغُضُّوۡامِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ؎ کی تفسیر سُنارہے ہیں آپ کو شرم نہیں آتی۔ اگر آپ کو پڑھانا ہے تو پردہ لٹکائیے اور پڑھائیے۔ یہ لعنتی بیماری ہے۔ اللہ کے نام پر اخؔتر فریاد کرتا ہے کہ اس مرض سے بچو، اس فعل سے ہم سب توبہ کریں کیوں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اس شخص پر جو دوسروں کی بہو، بیٹی کو دیکھتا ہے لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ اگر لڑکا ہے تو وہ بھی اس میں شامل ہے۔ ملا علی قاری رحمۃُاللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ متعلقاتِ نظر کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بیان فرمایا تاکہ ہر نظر جو حرام ہے اس میں داخل ہوجائے۔ یہ کلامِ نبوّت کی بلاغت ہے۔ مولانا نے کیا عمدہ بات فرمائی کہ اگر خفاش خصلت خُدا سے غافل اور ------------------------------