درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
بے گماں ترکِ اَدب باشد زما کُفرِ نعمت باشد و فعلِ ھویٰ مولانا فرماتے ہیں کہ سورج کے ہوتے ہوئے موم بتی اور چراغ سے روشنی حاصل کرنے والا انتہائی بے ادب ہے۔ یعنی اللہ کے ہوتے ہوئے غیر اللہ پر فریفتہ ہونا، فانی حسن کو دیکھ کر اللہ کو بھول جانا یہ ہماری طرف سے ترکِ ادب اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناشکری، کفرِ نعمت اور فعلِ ھویٰ یعنی نفس کی خباثت ہے کیوں کہ عالم کا ذرّہ ذرّہ اللہ کی نشانی اور ان کے جمالِ غیر فانی کا مظہر ہے۔پس کتنا بڑا احمق اور کتنا بڑا ناشکرا ہے وہ شخص کہ سورج کے ہوتے ہوئے موم بتی جلارہا ہے مولیٰ جو ساری کائنات کی لیلاؤں کو نمک دیتا ہے، حُسن کی بھیک دیتا ہے، پھر قبروں میں گلا سڑاکر ان کو خاک کردیتا ہے، ایسے مولائے پاک کے ہوتے ہوئے تم کہاں جاتے ہو۔ اگر ان حسینوں سے دل لگانے میں کوئی بھلائی ہوتی تو خُدا منع نہ کرتا۔ بتائیے کوئی ابّا اپنے بچوں کو مفید چیز سے منع کرے گا؟ تو ربّا اپنے بندوں کو مفید چیز سے کیسے منع کرے گا۔ اگر یہ فعل اچھا ہوتا تو خُدا پتھر نہ برساتا۔ میرا ایک شعر ہے جو عُلماء و مدرسین کے لیے بہت ضروری ہے ؎ بچو گندے عمل سے امردوں سے دور ہوجاؤ اگر یہ فعل اچھا تھا خُدا پتھر نہ برساتا پس مولانا فرماتے ہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر مرنے والی شکلوں پر مرنا اور اللہ کو ناراض کرنا انتہائی ناشکری، نفس پرستی اور ظلم ہے جیسے آفتاب سامنے ہو اور کوئی چراغ پر فریفتہ ہورہا ہو ؎ گر خفا شے رفت در کور و کبُود بازِسُلطاں دیدہ را بارے چہ بود ارشاد فرمایا کہ مولانا رومی کی قبر کو اللہ تعالیٰ نور سے بھردے، فرماتے ہیں کہ چمگادڑ جو اندھیروں میں لٹکا رہتا ہے اگر وہ اندھیرے میں جاکر پیشاب چوس رہا ہے اور پائخانہ چاٹ رہا ہے تو ہم کو کوئی تعجّب نہیں چوں کہ اس کی خصلت ہی خراب ہے۔ یہ