درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
حفاظت کی ضمانت ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو تکبر سخت نا پسند ہے۔ ابلیس تکبر ہی کی وجہ سے مردود ہوا۔ اسی لیے جب صحبتِ شیخ نصیب ہو تو اس وقت تنہائی میں بیٹھ کر ذکر نہ کرو اس سے بہتر ہے کہ تم شیخ کے پاس بیٹھے رہو کیوں کہ ذکر سے کبھی نشہ آئے گا اور تم اپنے کو بایزید بسؔطامی اور بابا فریدالدین عؔطار سمجھنے لگو گے، تکبّر آجائے گا۔ شیخ کا سایہ تمہیں مقامِ فنا پر رکھے گا اور اللہ کو مقامِ فنا پسند ہے ؎ نازِ تقویٰ سے تو اچھا ہے نیازِ رِندی جاہِ زاہد سے تو اچھی مری رسوائی ہے دوسرے مصرع میں مولانا فرماتے ہیں کہ سینکڑوں طبق سے ایک قناعت بہتر ہے۔ دیکھیے کیسی مثال دی کہ اگر تمہارے پاس سینکڑوں قسم کی بریانیاں سینکڑوں قسم کی پلیٹوں میں رکھی ہوں لیکن اگر قناعت نہیں ہے تو تم ہائے ہائے کرتے رہو گے اس لیے ان سینکڑوں طبق کے مقابلے میں ایک قناعت اگر تمہارے پاس ہے تو وہ کافی ہے۔ مراد یہ ہے کہ کثرتِ عبادت کے ناز سے بہتر ہے کہ شیخ کی صحبت سے تمہارے اندر ایک شکستگی آجائے جو ہزار عبادت سے افضل ہے ؎ پیر باشد نرد بانِ آسماں تیرِپرّاں از کہ گردداز کماں مولانا رومی فرماتے ہیں کہ پیر آسمان کی سیڑھی ہے ۔ کیا تیر بغیر کمان کے اُڑ سکتا ہے؟ تیر چاہے دس لاکھ روپے کا ہو چاہے سونے، چاندی اور جواہرات کا ہو زمین ہی پر پڑا رہے گا جب تک کمان میں نہیں آئے گا۔ شیخ کمان ہوتاہے۔اگر شیخ سے تعلق نہیں ہے تو تم علم و فضل کے باوجود زمین ہی پر دھرےرہو گے، کبھی اللہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ بعض لوگ کہتےہیں ہمیں اصلاح کی ضرورت نہیں، بس آٹھ سال مدرسہ میں پڑھ لینا کافی ہے، علم سے سب اصلاح ہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃُ اللہ علیہم کے پاس علم کم تھا جو ان حضرات نے ایک غیر عالم کی غلامی اختیار کی۔ بس حُبِّ جاہ مانع ہے، علم کا پندار کسی کو