درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوجاتے ہیں، جن کے دل مُردہ ہیں اللہ والوں کی صحبت سے وہ حیات پاتے ہیں اور ’’نما‘‘ معنیٰ میں ارتقاء کے ہے یعنی ان کی صحبت عطائے نسبت، بقائے نسبت، ارتقائے نسبت کا ذریعہ ہے اور فرمایا کہ اللہ والوں کے بارے میں تعجب مت کرو کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے کیسے ہروقت باخُدا رہتے ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہیں ؎ آں کہ برا فلاک رفتارش بود برزمیں رفتن چہ دشوارش بود تم یہ تعجب کرتے ہو کہ دنیا میں رہتے ہوئے یہ کیسے باخُدا رہتے ہیں، کیسے ہر وقت نظر کی حفاظت کرتے ہیں اور ہر وقت کیسے گُناہ سے بچتے ہیں اس کا یہ جواب ہے کہ جن کی رفتار افلاک پر ہے ان کو زمین پر چلنا کیا دشوار ہے؟ یعنی اللہ والے جب آسمانی اعمال یعنی اعمالِ صالحہ کی برکت سے افلاک پر پہنچ گئے یعنی صاحبِ افلاک سے جن کو رابطہ و تعلق نصیب ہوگیا توا ن کو ان زمینی اعمال سے بچنا کیا مشکل ہے جو اس تعلق و رابطہ مع الحق کے لیے مضر ہیں ؎ آں کہ واقف گشت براسرارِھو سرِّ مخلوقاں چہ بود پیش او جن کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے رموز واسرار سے آگاہی نصیب ہوگئی ان کے آگے مخلوق کے راز کیا حیثیت رکھتے ہیں ؎ سایۂ رہبر بہ است از ذکرِ حق یک قناعت بہتر از صدہا طبق شیخ کی صحبت کا سایہ تمہاری تنہائی کے ذکر سے افضل ہے کیوں کہ شیطان نے بھی اکیلے بڑی عبادت کی تھی، آسمان پر کوئی جگہ خالی نہ تھی جہاں ظالم نے سجدہ نہ کیا ہو لیکن مردود ہونے سے نہ بچ سکا کیوں کہ عبادت سے فنائیت کے بجائے اس کے اندر تکبّر پیدا ہوگیا اور شیخ کا سایہ تکبر سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور تکبر سے حفاظت مردودیت سے