درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
ہوجاتا ہے کیوں کہ غافلین کےساتھ رہنے سے غفلت پیدا ہوتی ہے اس لیے کسی اللہ والے کی کشتی میں بیٹھ جاؤ یعنی ان کی صحبت اختیار کرو تو فسق و فجور کے سیلاب سے بچ جاؤ گے ؎ چوں شوی دُور اَز حضورِ اولیاء در حقیقت گشتۂ دور از خُدا اگر اللہ والوں سے بدگمان ہوکر تم ان سے دور رہوگے تو تم ولی اللہ سے دور نہیں ہوئے اللہ سے دور ہوگئے۔ اگر تم اپنے شیخ سے دور رہو گے تو اللہ سے بھی قریب نہیں ہوسکتے۔ میرے شیخ حضرت شاہ ہردوئی دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ آئس کریم کو فریج سے نکال کے رکھ دو پانی ہوجائے گی ،ماہیئت بدل جائے گی، پہچانو گے بھی نہیں کہ یہ کبھی آئس کریم تھی کیوں کہ آئس کریم اپنے کریم سے دور ہوگئی، فریج اس کے لیے کریم ہے۔ اسی طرح شیخ بھی کریم ہے اس سے دور نہ رہو۔ اگر حسی قُرب حاصل نہ ہوسکے تو کم سے کم خط و کتابت سے تعلق رکھو ؎ طبع ناف آ ہویست ایں قوم را اندروں خوں و اندروں شاں مشکہا اللہ والوں کا مزاج مِثل ہرن کے نافہ کے ہے کہ نافہ میں تمام خُون بھرا ہوا ہے اور اسی کے بیچ میں مشک چھپا ہوا ہے۔ اسی طرح اہل اللہ کے لوازمِ بشریت سے دھوکا نہ کھاؤ کہ ان کو بھی بول و براز کی حاجت ہوتی ہے، وہ بھی کھانے پینے اور سونے کے محتاج ہیں، کبھی کھانسی آرہی ہے، کبھی ناک کا بلغم صاف کررہے ہیں۔ لہٰذا ان کا خُون اور بلغم مت دیکھو بلکہ ان کے اندر نسبت مع اللہ کا جو مشک چھپا ہوا ہے اس کی قدر کرو کہ اس کی قیمت زمین و آسمان، سورج و چاند اور بادشاہوں کے تخت و تاج بھی ادا نہیں کرسکتے ؎ ہیں کہ اسرافیلِ وقت اند اولیاء مردہ را زیشاں حیات است و نما اولیاء اللہ اپنے زمانے کے اسرافیل ہوتے ہیں۔ جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو مُردے زندہ ہوجائیں گے۔ اسی طرح ان کے ملفوظات سے مُردہ دل زندہ