درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
آہ!یہ مولانا روم ہیں کس پیارے عنوان سے دُعا کررہے ہیں کہ اے اللہ! بہت سے بندے نالائق تھے، آپ کے کرم سے لائق ہوگئے۔ آپ کی مہربانی کا ہاتھ جانوں کے اندر پوشیدہ ہے بس آپ نے ارادہ کیا اور نالائق لائق ہوا کیوں کہ آپ کے ارادے پر مراد کا تخلُّف محال ہے ؎ جود می جوید گدایان و ضعاف ہمچو خوباں آئینہ جویند صاف اللہ تعالیٰ کا جود و کرم اپنے کمزوروں، فقیروں اور بے نواؤں کو خود تلاش کرتا ہے جیسے حسین صاف آئینہ تلاش کرتے ہیں کہ ہماری شکل اور ناک نقشہ صحیح نظر آئے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا جود و کرم بھی غریبوں کو،فقیروں کو، حاجت مندوں کو تلاش کرتا ہے۔ ہمارے فقر و مسکنت کے آئینہ میں ان کے جود و کرم کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہم اللہ کے بھکاری تو بن جائیں اللہ تعالیٰ تو خود ہم کو اپنا بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی رحمت تو خود ہماری منتظر ہے ؎ گر بگرید ور بنالد زار زار اونخواہد شُد مُسلماں ہوش دار اگر نفس زار و قطار روئے اور فریاد کرے تو بھی اس کی شرارت سے مطمئن نہ رہنا، اس سے ہوشیار رہنا، یہ ظالم پورا فرماں بردار نہیں ہوتا ذرا سی دیر میں بدمعاشیاں شروع کردیتا ہے۔ اس لیے اس کی لگام کھینچےرکھنا ورنہ یہ نافرمانی کی سابقہ رفتار پر آجائے گا ؎ ہر ولی را نوحِ کشتی باں شناس صحبتِ ایں خلق را طوفاں شناس مولانا فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو حضرت نوح علیہ السلام کا نائب سمجھو۔ اگر تمہیں طوفان سے بچنا ہے توا ن کی کشتی میں بیٹھنا اپنی سعادت اور حفاظت سمجھو۔ مخلوق کے ساتھ اختلاط اور رات دن مخلوق میں رہنا یہی سیلاب اور طوفان ہے کہ اسی سے بندہ گناہ گار