درس مثنوی مولانا روم رحمہ اللہ |
ہم نوٹ : |
|
اپنے بندوں کو بغیر نفس کشی اور بغیر مُجاہدہ و مشقت اپنا بناسکتے تھے پھر مُجاہدہ کیوں فرض کیا، اس کی حکمت سمجھ میں نہیں آتی تھی اور حضرت نے دس برس تک کسی پر یہ اشکال ظاہر نہیں کیا تاکہ میرے اشکال سے دوسرا کیوں مشکل میں پڑے۔ پھر مثنوی ہی کے ایک شعر سے حضرت کا یہ اشکال حل ہوا۔ وہ شعر یہ ہے ؎ لیک شیرینی و لذّاتِ مقر ہست براندازۂ رنج سفر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ منزل کا لطف و آرام سفر کی تکالیف اور مشقتوں پر موقوف ہے۔ سفر میں جتنی زیادہ تکلیف ہوتی ہے منزل کا لُطف اسی قدر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مُجاہدہ فرض کرکے اپنی راہ کو تھوڑا سا مُشکل کردیا تاکہ ان تکلیفوں سے گزر کر جب بندے جنّت پہنچیں تو ان کو جنّت اور نعمائے جنّت کی خوب قدر ہو۔ اگر مجاہدہ فرض نہ ہوتا اور کوئی تکلیف ہی نہ پہنچتی تو جنّت کا وہ مزہ نہ آتا جو ان شاء اللہ! اب آئے گا۔ حضرت گنگوہی رحمۃُاللہ علیہ نے درسِ بُخاری شریف میں فرمایا کہ قیامت کے دن جب جنّت کہے گی کہ یا اللہ! ابھی میرا پیٹ نہیں بھرا کچھ جنّتی اور عطا فرمائیے تو اللہ تعالیٰ ایک مخلوق پیدا کرکے اسے جنت میں داخل کردیں گے۔ تو ایک طالب علم نے کہا کہ کاش! میں وہی مخلوق ہوتا کہ بغیر نماز روزہ جنّت میں پہنچ جاتا۔ تو حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ ارے بدھو! بھلا ان کو جنّت کا کیا مزہ آئے گا جنہوں نے نہ روزہ رکھا، نہ نماز پڑھی، نہ جہاد کیا، نہ گُناہوں سے بچنے کا غم اُٹھایا، نہ خونِ قلب بہایا نہ خونِ قالب بہایا، مزہ تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو آئے گا جو تکلیفیں اُٹھاکر جنّت میں پہنچیں گے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَاوَ نَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا؎ اے ز تو کس گشتہ جانِ ناکساں دست فضل تست درجاں ہارساں ------------------------------